Sadqa Fitr Ki Adaigi Mein Dene Wale ki Jagah Ka Itibar Hai Ya Wakeel Ki Jagah ka

صدقۂ فطر کی ادائیگی میں اصل دینے والے کی جگہ کا اعتبار ہوگا یا وکیل کی جگہ کا ؟

مجیب:   محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق: مفتی محمد ھاشم خان عطاری

فتوی  نمبر: 43

تاریخ  اجراء: 07رمضان المبارک4214ھ/20اپریل2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ صدقہ فطرکی ادائیگی میں کس کااعتبارہے ،جس کے ذمہ لازم ہے ،اس کااعتبارہے یاکسی اورکا مثلاایک پاکستانی عارضی طورپریوکے میں رہتاہے،اس کے بیوی بچے پاکستان میں ہیں ،وہ پاکستان میں کسی کووکیل بناتاہے کہ میری اورمیرے بیوی ،بچوں کی طرف سے صدقہ فطر اداکردو ، بچے سب اس کے عیال میں ہیں ،کچھ عاقل بالغ ہیں اورکچھ نابالغ۔بالغ اولاداوربیوی توصاحب نصاب ہیں ،لیکن نابالغ صاحب نصاب نہیں ،تواس صورت میں یوکے میں صدقہ فطرکی جتنی رقم بنتی ہے ،اس کااعتبارہوگایاپاکستان میں جتنی رقم بنتی ہے ،اس کااعتبارہوگا؟اسی طرح اگریہ یوکے میں خوداداکرتاہے،توکس جگہ کی قیمت کااعتبارہوگا؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   صدقہ فطرکی ادائیگی میں اس کااعتبارہے ،جس پرصدقہ فطراداکرنالازم ہے ۔پس صورت مسئولہ میں عارضی طورپریوکے میں رہنے والے پاکستانی کے اپنے صدقہ فطراوراس کے نابالغ بچوں کے صدقہ فطرمیں یوکے کی قیمت کا اعتبارہے اوراس کی بیوی اوربالغ بچوں کے صدقہ فطرمیں پاکستان کی قیمت کااعتبارہے ،خواہ خودیوکے میں اداکرے یا پاکستان وغیرہ کسی دوسرے ملک میں رہنے والے کواپناوکیل بنائے ،کیونکہ نابالغ بچے جومالک نصاب نہیں ،ان کاصدقہ فطرخوداسی پرلازم ہے،تونابالغ بچوں اوراس کے صدقہ فطرمیں یوکے کااعتبارہوگااوربیوی اورعاقل بالغ بچوں کاصدقہ فطرخودان کے اپنے او پرلازم ہے،اگرچہ بیوی اورعیال میں شامل بچوں کی طرف سے عادۃ اذن ہونے کی وجہ سے ان کاصدقہ فطر بغیراجازت بھی اداکرنے سے اداہوجاتاہے اوراگروہ پاکستان میں ہیں، توان کے صدقہ فطرمیں پاکستان کا اعتبارہوگا۔

   ہدایہ میں ہے:”وحيلة المصري إذا أراد التعجيل أن يبعث بها إلى خارج المصر فيضحي بها كما طلع الفجر، لأنها تشبه الزكاة من حيث أنها تسقط بهلاك المال قبل مضي أيام النحر كالزكاة بهلاك النصاب فيعتبر في الصرف مكان المحل لا مكان الفاعل اعتبارا بها، بخلاف صدقة الفطر لأنها لا تسقط بهلاك المال بعدما طلع الفجر من يوم الفطر“ترجمہ:اورشہری کاحیلہ کہ جب وہ قربانی جلدی کرناچاہے، یہ ہے کہ وہ قربانی والے جانورکوشہرسے باہربھیج دے ،تواسے فجرطلوع ہوتے ہی ذبح کیاجاسکتاہے، کیونکہ یہ زکوۃ کے مشابہ ہے ،اس اعتبارسے کہ ایام نحرسے پہلے مال کے ہلاک ہونے سے ساقط ہوجاتاہے ،جیسے زکوۃ ساقط ہو جاتی ہے نصاب کے ہلاک ہونے سے، پس ادائیگی میں محل کے مکان کااعتبارہوگا ، نہ کہ فاعل کے مکان کازکوۃ پرقیاس کرتے ہوئے ،برخلاف صدقہ فطرکے ،کیونکہ یوم عیدالفطرکی فجرطلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا۔(الھدایۃ،کتاب الاضحیۃ،اخیرین،صفحہ 446،مطبوعہ لاھور)

   اس کے تحت بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:”(بخلاف صدقة الفطر)حيث يعتبر فيها مكان الفاعل وهو المؤدي(لأنها لا تسقط بهلاك المال بعدما طلع الفجر من يوم الفطر)فحينئذ يعتبر مكان صاحب الذمة وهو المؤدي “ترجمہ:برخلاف صدقہ فطرکے کہ اس میں فاعل کے مکان کااعتبارہے اورفاعل سے مراد اداکرنے والاہے ،کیونکہ یوم عیدالفطرکی فجرطلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا،پس اب جس کے ذمہ صدقہ فطرلازم ہے ،اس کے مکان کااعتبارہوگااوروہ ہے اداکرنے والا۔(البنایۃ شرح الهدایۃ،کتاب الاضحیۃ، جلد 11،صفحہ 27-28، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی ہندیہ میں ہے:”وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات“ترجمہ:اورصدقہ فطرمیں جس کے ذمہ لازم ہے ،اس کے مکان کااعتبارہوگا،نہ کہ اس کی نابالغ اولاداوراس کے غلاموں کے مکان کاصحیح قول کے مطابق ،اسی طرح تبیین میں ہے اوراسی پرفتوی ہے ،اسی طرح مضمرات میں ہے ۔(فتاوی هندیہ ،کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج01، ص190، مطبوعہ کوئٹہ)

   درمختارمیں ہے:”عن نفسہ۔۔وطفلہ الفقیر۔۔۔۔لاعن زوجتہ وولدہ الکبیرالعاقل ولوادی  عنهما   بلا    اذن    اجزا استحسانا     للاذن      عادۃ        ای     لو      فی عیالہ      و   الافلا ترجمہ:صاحب نصاب آزادمسلمان پراپنی طرف سے اوراپنے غیرمالک نصاب چھوٹے بچے کی طرف سے صدقہ فطرواجب ہوتاہے نہ کہ اپنی بیوی کی طرف سے اوراپنی عاقل بالغ اولادکی طرف سے اوراگران کی طرف سے بغیراجازت کے اس نے اداکردیا،تواستحساناکفایت کرجائے گاکہ عادۃاجازت ہوتی ہے یعنی اگراولاداس کے عیال میں ہوورنہ نہیں ۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الزکاۃ،باب صدقۃ الفطر،ج03،ص367-68-70،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:”مردمالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے، جبکہ بچہ خود مالکِ نصاب نہ ہو۔“(بھارشریعت،جلد 1،حصہ5،صفحہ937،مکتبۃ المدینہ  ، کراچی)

   بہارشریعت میں ہے:”اپنی عورت اور اولاد عاقل بالغ کا فطرہ اُس کے ذمہ نہیں اگرچہ اپاہج ہو، اگرچہ اس کے نفقات اس کے ذمہ ہوں۔“(بھارشریعت،جلد 1،حصہ5،صفحہ 938،مکتبۃ المدینہ ،  کراچی)

   بہارشریعت میں ہے:”عورت یا بالغ اولاد کا فطرہ ان کے بغیر اِذن ادا کر دیا تو ادا ہوگیا، بشرطیکہ اولاد اس کے عیال میں ہو یعنی اس کا نفقہ وغیرہ اُس کے ذمہ ہو۔“(بھارشریعت،جلد 1،حصہ5،صفحہ 938،مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا:”زیدبمبئی میں ہے اوراس کے بچے وطن میں ہیں،توان کے صدقہ فطرکے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤسے اداکرے یابمبئی کے بھاؤسے ؟اورزیورات جن کاوہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں توزکوۃ کی ادائیگی میں کہاں کااعتبارہے؟“

   اس کے جواب میں فرمایا:”بچے اورزیورات جب کہ وطن میں ہیں، توصدقہ فطرکے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبارکرناہوگااورزیورات میں وطن کی قیمت کا،لانہ یعتبرفی صدقۃ الفطرمکان المودی وفی الزکوۃ مکان المال،ھکذاقال صاحب الھدایۃ فی کتاب الاضحیۃ۔(فتاوی فیض الرسول،جلد 1،صفحہ 511،شبیربرادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم