Roze Me Injection Lagwane Ka Hukum

روزے میں انجیکشن لگوانے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7792

تاریخ اجراء:  21شعبان المعظم 1443ھ/25 مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ روزے کی حالت میں اگر شدید بیماری کی وجہ سے انجیکشن لگوانا پڑ جائے ، تو کیا لگوا سکتے ہیں ، اس سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عمومی طور پر انجیکشن لگانے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں ۔(1)گوشت میں (2 )رَگ(Vein) میں ، یا (3) براہ راست پیٹ یا دماغ میں۔

   اب بالترتیب اِن کا حکم ملاحظہ کیجیے :

   (1)اور (2) گوشت یا رَگ(Vein) میں انجیکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔

   (3) اور اگر ایسی صورت ہو کہ براہِ راست انجیکشن کی سوئی پیٹ یا دماغ میں داخل کی جائے ، مثلاً: پیٹ یا دماغ میں ایسا زخم ہو گیا جس سے میڈیسن براہِ راست پیٹ یا دماغ میں پہنچائی گئی ، تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

   اس کی تفصیل یہ ہے کہ روزہ ٹوٹنے کا دارومدار اِس بات پر ہے کہ کوئی چیز پیٹ ، دماغ یا ان تک جانے والے راستوں میں داخل کی جائے ، لہٰذا جب انجیکشن گوشت یا رَگ میں لگایا جائے گا ، تو اس کا اَثْر جسم میں سرایت کرے گا، پیٹ یا دماغ میں نہیں ، یعنی انجیکشن کے ذریعے لگائی جانے والی میڈیسن براہِ راست اُن مقامات میں نہیں پہنچے گی جہاں پہنچنے سے روزہ ٹوٹتا ہے ،اِس لیے روزہ کی حالت میں گوشت یا رَگ میں انجیکشن لگوا سکتے ہیں ، اِس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اور جب براہ  راست پیٹ یا دماغ میں انجیکشن کی سوئی  داخل کر کے دوا ڈالی جائے گی ، تو اس صورت میں براہِ راست دَوا اس مقام پر پہنچے گی جہاں پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے اس طرح انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔

   کسی چیز کے پیٹ ، دماغ یا ان تک جانے والے راستوں میں پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء)لکھتے ہیں:ما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن المخارق الأصلية كالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلى الجوف أو إلى الدماغ فسد صومه وأما ما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن غير المخارق الأصلية بأن داوى الجائفة، والآمة، فإن داواها بدواء يابس لا يفسد لأنه لم يصل إلى الجوف ولا إلى الدماغ ولو علم أنه وصل يفسد ترجمہ:کوئی چیز کسی اصلی یا مصنوعی راستے ، مثلاً ناک ، کان یا مقعد کے ذریعے معدہ یا دماغ تک پہنچ جائے ، تو روزہ ٹوٹ گیا ،  یعنی روزہ دار نے ناک میں اوپر تک پانی چڑھایا یا حقنہ لیا یا کان میں پانی ڈالا، جو کہ معدہ (یا معدہ تک جانے والے اندرونی راستوں ) یا دماغ تک پہنچ گیا ، تو روزہ ٹوٹ گیا ، بہرحال وہ چیز جو پیٹ یا دماغ تک قدرتی بنے ہوئے راستوں سے نہ پہنچے، جیسا کہ  سر یا معدہ میں گہرا زخم ہوا اور روزہ دار نے وہاں خشک دوا ڈالی ، تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ، کیونکہ وہ دوا معدہ یا دماغ میں نہیں گئی اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ معدہ یا دماغ تک پہنچ گئی ہے ، تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (بدا ئع الصنائع، کتاب الصیام،فصل فی ارکان الصیام ، جلد2، صفحہ603 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں: تحقیق یہ ہے کہ انجیکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا چاہے رَگ میں لگایا جائے ، چاہے گوشت میں، کیونکہ اس کے بارے میں ضابطہ کلیہ یہ ہےکہ جماع اور اس کے ملحقات کے علاوہ روزہ کوتوڑنے والی صرف وہ دوا اور غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے صرف دماغ یا پیٹ میں پہنچے۔ (فتاوی فیضِ رسول ،جلد1،صفحہ516،مطبوعہ شبیر برادرز ،لاھور)

   انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کی صورتوں کے متعلق شاندار گفتگو کرتے ہوئے مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1403ھ/1982ء) لکھتے ہیں: ہر ایک ٹیکہ( انجیکشن) مُفْسِد روزہ نہیں کہ اشیائے مستعملہ میں صرف اکل و شرب اور جماع ہی سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے ، کیونکہ ان کے استعمال سے رکنِ روزہ ( الامساک عن الاکل وا لشرب والجماع ) فوت ہو جاتاہے …… کوئی عام ٹیکہ یقینا  اکل و شرب بھی نہیں ، تو مفسد بھی نہیں ، ٹیکہ کا حقیقی اکل وشرب (صورتِ کاملہ اور معنی کے لحاظ سے )نہ ہونا تو روزِ روشن سے بھی روشن ہے ، فقہائے کرام کے نزدیک اکل و شرب یہ ہے : (ایصال ما یقصد بہ التغذی او التدوای الی الجوف عن الفم یعنی منہ کے راستے پیٹ تک ایسی چیز کا پہنچانا جس سے کھانا یا پینا یا دواکرنا مقصود ہو ) اور چونکہ ٹیکہ میں منہ والا اصلی راستہ استعمال نہیں ہوتا ، بلکہ سوئی کے مصنوعی راستہ سے ایصال ہو تا ہے اور وہ بھی پیٹ تک نہیں ، بلکہ جسم کے کسی بالا ئی یا زیریں حصہ میں ، تو واضح ہوا کہ ٹیکہ حقیقی اکل و شرب قطعاً نہیں اور یونہی صرف صورۃ  بھی اکل و شرب نہیں کہ اکل و شرب کی صورت ہے (الابتلاع یعنی منہ سے کسی چیز کو پیٹ تک پہنچانا ) ……تو عام ٹیکہ جو جسم کے بالائی حصہ یا زیریں حصوں میں کیا(لگایا ) جاتاہے اس میں یہ صورت  اکل و شرب دونوں طرح ہی نہیں پائی جاتی کہ سوئی پیٹ سے بہت دور دوائی ڈالتی ہے اور یونہی ایسا ٹیکہ معنیً بھی اکل و شرب نہیں کہ اکل و شرب کا معنی ہے : (وصول ما فیہ صلاح البدن الی الجوف یعنی پیٹ تک ایسی چیز کا پہنچنا جس میں بدن کا فائدہ ہو ) …… تو عام ٹیکوں میں یہ معنی بھی قطعاً نہیں پایا جاتا کہ وہ واصل الی الجوف نہیں ہوتے ، لہٰذا ایسے ٹیکے حقیقت یا صورت یا معنی کسی لحاظ سے بھی مفسد  صوم نہیں ، البتہ اگر کوئی ٹیکہ " جوف" میں کیا (لگایا) جائے ، یعنی سوئی جوف تک پہنچا کردوائی جوف میں ڈالی جائے ، تو ایسا ٹیکہ ضرور مفسد ہو گا…… یونہی جوف تک پہنچنے والے کسی اصلی راستے (حلق ، کان ، ناک وغیرہ ) کے اندرونی حصہ میں یا دماغ میں حسبِ دستور سوئی کے خود ساختہ راستہ سے دوائی پہنچانا بھی مفسد ہے ، کیونکہ دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے بھی جوف ہی کے حکم میں ہیں ، اس لیے کہ ان راستوں کے خلا، خلاءِ پیٹ سے ملے ہوئے ہیں اور دماغ و جوف کے مابین بھی چونکہ قدرتی راستہ ہے ، توجو چیز دماغ میں پہنچے وہ جوف میں پہنچ جاتی ہے ، لہٰذا دماغ اور اصلی راستوں کے اندرونی حصے جوف کے کونوں کی طرح ہیں ۔ (فتاویٰ نوریہ ،جلد2،صفحہ217 ، 219،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم