Roze Ki Halat Mein Wuzu Aur Ghusl Ke Doran Naak Mein Pani Chadhane Ka Hukum

روزے کی حالت میں وضو و غسل کے دوران ناک میں پانی چڑھانے کا حکم

مجیب:    ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی  نمبر: FMD-1415

تاریخ  اجراء: 13رمضان المبارک4014ھ/19مئی2019ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر روزے کی حالت میں احتلام کی وجہ سے غسل فرض ہو جائےاورغسل کرنا ہو، تو دورانِ غسل ناک کے نرم حصےتک پانی پہنچانا ضروری ہےیا نہیں؟اسی طرح وضو میں ناک میں پانی چڑھانے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   کلی کرنا(اچھی طرح منہ کا اندرونی حصہ دھونا)اور ناک کےدونوں نتھنوں میں تمام نرم حصے کو دھونا( نرم حصہ ناک کی سخت ہڈی شروع ہونے سے پہلے تک ہے)غسل کے دو اہم ترین فرائض ہیں ، جبکہ وضو میں یہ دونوں عمل سنت موکدہ ہیں ۔اتنی بات  میں روزہ دار وغیر روزہ دار کا کوئی فرق نہیں ہے۔

   البتہ روزہ نہ ہو تو وضو اور غسل میں مذکورہ دونوں افعال ادا کرتے وقت ان میں مبالغہ کرنا، جداگانہ ایک مسنون ومستحب  عمل ہے ۔کلی میں مبالغے سے مراد یہ ہے کہ کلی کرنے کے دوران غرغرہ بھی کیا جائے ۔ یعنی  حلق کی جڑ تک پانی پہنچا کر اسے خوب ہلایا جائے اورناک میں پانی چڑھانے میں مبالغے سے مراد یہ ہےکہ پانی کو سانس کے ذریعے کھینچ کرناک کے نرم حصے سےآگے ناک کی جڑ تک پہنچایا جائے۔

   جبکہ روزہ دار کے لیے وضو وغسل کے دوران کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کے وقت مذکورہ بالا طریقےکے مطابق مبالغہ کرنا مکروہ ہےکہ حدیث مبارک میں مبالغہ کرنے کے حکم میں روزے دار کا استثناء کیا گیا ہے ۔ نیز ان میں ذرا سی بے احتیاطی ہونے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے ۔ یعنی روزہ دار کلی کرتےوقت غرغرہ نہ کرے  کہ ممکن ہے حلق سے پانی نیچے اتر جائے ۔ اگر ایسا ہوا ،  تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح پانی کو سونگھ کر ناک کی جڑ تک  نہ پہنچائے کہ ذرا سی  بے احتیاطی سےدماغ تک پانی پہنچ  گیا ، تو اس سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔

   تنویر الابصارودرمختار میں ہے:”(وفرض الغسل،غسل)کل(فمہ)۔۔۔(وانفہ) حتی ما تحت الدرن(و)باقی(بدنہ)(ملتقطاً)یعنی غسل کے فرائض یہ ہیں کہ پورا منہ اندر سے دھویا جائے اور ناک کو یہاں تک  کہ اس میں جمی ہوئی رینٹھ کے نیچے تک حصےکو دھویا جائے اور باقی سب بدن کو دھویا جائے۔ (درمختار معہ رد المحتار، جلد 2،صفحہ 312،مطبوعہ کوئٹہ)

   مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے : ”(و)یسن( المبالغۃ فی المضمضۃ )وھو ایصال الماء لراس الحلق(و)المبالغۃ فی(الاستنشاق )وھی ایصالہ الی فوق المارن (لغیر الصائم )والصائم لا یبالغ فیھما خشیۃ افساد الصوم۔لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام”بالغ فی المضمضۃ والاستنشاق الا ان تکون صائما “یعنی کلی کرنے میں مبالغہ یعنی حلق کی جڑ تک پانی پہنچانا اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ یعنی ناک کے نرم گوشے سے اوپر تک پانی پہنچانا اس شخص کے لئے سنت ہےجو روزے سے نہ ہو جبکہ روزہ دار ان دونوں چیزوں میں روزہ ٹوٹنے کے خطرے کےپیشِ نظر مبالغہ نہیں کرےگا ۔ اس لئے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو  مگر یہ کہ روزے سے ہو (تو مبالغہ نہ کرو)۔

   اس کے تحت علامہ سید احمد طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”قولہ(والمبالغۃ ) فیھما ھی سنۃ فی الطھارتین علی المعتمدیعنی کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا معتمد قول کے مطابق وضو اور غسل دونوں میں سنت ہے ۔(مراقی الفلاح معہ حاشیۃ الطحطاوی،صفحہ 70،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ” ناک کے دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دُھلنا (غسل میں فرض ہے)۔۔۔۔اوریہ یونہی ہوسکے گا کہ پانی لے کر سونگھے اور اوپر کو چڑھائے کہ وہاں تک پہنچ جائے ۔لوگ اس کا بالکل خیال نہیں کرتے اوپر ہی اوپر پانی ڈالتے ہیں کہ ناک کے سرے کو چھو کر گرجاتا ہے  ، بانسے میں جتنی جگہ نرم ہے اس سب کو دھونا تو بڑی بات ہے ۔ظاہرہے کہ پانی کا بالطبع میل نیچے کو ہے اوپر بے چڑھائے ہرگز نہ چڑھے گا ۔ افسوس کہ عوام تو عوام ،بعض پڑھے لکھے بھی اس بلا میں گرفتار ہیں ۔کاش! استنشاق کے لغوی ہی معنے پر نظر کرتے تو اس آفت میں نہ پڑتے۔ استنشاق ،سانس کے ذریعے کوئی چیز ناک کے اندر چڑھانا ہے نہ کہ ناک کے کنارہ کو چھوجانا۔ وضو میں  تو خیر اس کے ترک کی عادت ڈالنے سے سنت چھوڑنے ہی کا گناہ ہوگا  کہ مضمضہ واستنشاق بمعنی مذکور دونوں وضو میں سنت موکدہ ہیں ۔۔۔۔اور سنت موکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو عتاب ہی کا استحقاق ہو مگر بارہا ترک سے بلا شبہ گنہگار ہوتا ہے ۔۔۔۔ تاہم وضو ہوجاتا ہے اور غسل تو ہرگز اترے ہی گا نہیں جب تک سارا مُنہ حلق کی حد تک اور سارا نرم بانسا سخت ہڈی کے کنارہ تک پورا نہ دُھل جائے۔یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر ناک کے اندر کثافت جمی ہو تو لازم کہ پہلے اسے صاف کرلے ورنہ اس کے نیچے پانی نے عبور نہ کیا تو غسل نہ ہوگا۔۔۔۔۔اس احتیاط سے بھی روزہ دار کو مفر نہیں۔ہاں اس سے اوپر تک اسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے ، غیر روزہ دار کے لیے یہ بھی سنت ہے ۔درمختار میں ہے : ”سننہ المبالغۃ بمجاوزۃ المارن لغیر الصائم“(یعنی غسل کی سنتوں میں سے یہ بھی ہے کہ غیر روزہ دار  ناک کے نرم حصے سے اوپرتک  پانی پہنچانے میں مبالغہ کرے۔ مترجم)۔“(ملتقطاً)

   نیز فوائد مسئلہ بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتےہیں : ”منہ کے ہر ذرہ پر حلق تک پانی بہنا  اور دونوں نتھنوں میں ناک کی ہڈی شروع ہونے تک پانی چڑھنا غسل میں فرض اور وضو میں سنت موکدہ ہے ۔“(فتاوی رضویہ، جلد1 حصہ2، صفحہ596،595، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں روزے کی حالت میں  فرض غسل ادا کرتے وقت غسل کے تینوں فرائض ادا کیے جائیں گے ۔ یعنی پورے جسم پراچھی طرح  پانی بہانے اور کلی کرنےکے ساتھ ساتھ ناک کے اندورنی تمام نرم حصے تک پانی پہنچانابھی فرض رہے گا۔ اگر ایسا نہ کیا تو جنابت دور نہیں ہوگی اور ایسےشخص کا مسجد میں داخل ہونایا نماز پڑھنا بھی ناجائز وگناہ ہے ، بلکہ اس حالت میں پڑھی گئی تمام نمازوں کا ازسرِ نو اعادہ کرنا بھی فرض ہوگا ۔

   تنبیہ:ماہ رمضان المبارک میں عموماً بعض لوگوں میں یہ مسئلہ یوں بھی گردش کرتا ہے کہ” روزے کی حالت میں فرض غسل کرتےوقت کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کاعمل غروبِ آفتاب کے بعد کیا جائے گا،ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔“اور حالیہ کچھ دنوں قبل ایک مسجد کےامام صاحب سے متعلق سناگیاکہ  انہوں نے اپنے مقتدیوں میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ”روزے کی حالت  میں غسل فرض ہوجائے تو بغیر ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھائے ، غسل ہوجائے گا۔“اورمقتدیوں کی جانب سےکئی بار وضاحت لینے کے بعد بھی وہ یہی کہتے رہےکہ” روزہ دارکے لئے فرض غسل میں ناک میں پانی چڑھانا  ضروری نہیں ۔“الامان والحفیظ۔

   مذکورہ بالا دونوں باتیں دِینی درست تعلیم سے ناواقفیت وجہالت  پر دلیل ہیں ۔ ان غلط مسائل بیان کرنے کا نتیجہ یہ  نکلے گا کہ عوام ان کے کہے کے مطابق فرض غسل ادا کریں گے  اور نمازیں پڑھ کر مطمئن ہوجائیں گےکہ روزے بھی محفوظ رہے اور نمازیں بھی ادا ہوگئیں ، جبکہ فرض غسل ادا نہ ہونے کے باعث نمازیں اصلاً ہی ادا نہ ہوں گی ، بلکہ ذمہ پر باقی رہیں گی ۔

   یاد رہے کہ اپنے حسب حال دینی ضروری مسائل و احکام کا سیکھنا ہر خاص وعام مسلمان پر فرض ہے۔ عام عوام کے  مقابل مذہبی طبقے اور بالخصوص مساجد کےائمہ کرام پران ضروری مسائل سے درست آگاہی کی ذمہ داری کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے  ، کیونکہ عام مسلمان اپنے روز مرہ کے دینی وضروری مسائل کبھی کبھارمذہبی طبقے سے وابستہ افراد اور ائمہ مساجد سےبھی  پوچھ لیتے اوران کے بتائے ہوئے جواب کے مطابق عمل پیرا بھی ہوجاتے ہیں ۔یاد رہے اگر اپنی اٹکل سے مسئلہ غلط بتایا جائے ، تو ا س کا وبال بہت سخت ہوگا کہ غلط مسئلے کے مطابق لوگ عمل کرتے رہے ، تو اس پر جہاں وہ خود  گناہگار ہوں گے ، وہیں اپنی اٹکل سے غلط رہنمائی کرنے والےائمہ مساجد بھی گناہگار ٹھہریں گے اور حدیث شریف  میں اس فعل کی سختی کے ساتھ مذمت بیان کی گئی ہے ۔

   چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث شریف ابوداؤد کے حوالے سے مشکوۃ المصابیح میں  ہے: ” قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أفتي بغير علم كان إثمه على من أفتاه “ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو  بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا  ، تو اس کا گناہ اس پر ہے جس نے اس کو فتویٰ دیا ہے ۔        (مشکوٰۃ المصابیح،صفحہ35،مطبوعہ کراچی)

   جامع الصغیر میں مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے : ”من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض “یعنی جس نے بغیر علم کے فتوی دیا اس پر آسمان وزمین کے فرشتوں کی  لعنت ہے ۔(جامع الصغیر معہ فیض القدیر،جلد6صفحہ101، بیروت)

   اس لیے جو افراد اپنی نادانی اور شرعی احکامات سے ناواقفیت کی  بنا پراٹکل سے عوام کو یہ غلط مسائل بتاتے آرہے ہیں کہ

   (1)روزہ کی حالت میں فرض غسل کرتے وقت کلی اورناک میں پانی چڑھانے کا عمل غروبِ آفتاب کے بعد کیا  جائے ،ورنہ  روزہ ٹوٹ جائے گا۔

   (2)روزہ دار کے لئے فرض غسل میں ناک  میں پانی چڑھانا ضروری نہیں ۔

   ان  پر لازم ہےکہ وہ اپنے ان غلط مسائل  بیان کرنے سے توبہ کریں اور عوام کو درست مسئلے سے آگاہ کریں اور کسی مستندسنی صحیح العقیدہ  عالم دین ومفتی صاحب سے علم دین حاصل کریں اور جب تک علم دین اچھی طرح حاصل نہ کرلیں  شرعی مسائل ہر گز بیان نہ کریں  ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم