Roze Ki Halat Mein Senitizer Gate se Guzarnay Ka Hukum

روزے کی حالت میں سینی ٹائزر گیٹ سے گزرنے سے روزے کا حکم

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق: مفتی محمد ھاشم خان عطاری

فتوی  نمبر: Lar-9674

تاریخ  اجراء: 07رمضان المبارک1441ھ/01مئی2020ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کرونا وائرس سے حفاظت کے لیے مختلف مقامات پرسینی ٹائزرگیٹ نصب کیے گئے ہیں ۔ گزرنے والے روزے کی حالت میں اس میں سے گزرتے ہیں اوراس کے اجزاءحلق میں چلے جاتے ہیں ،ان کاذائقہ بھی حلق میں محسوس ہوتاہے ،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ روزے کی حالت میں یہ جانتے ہوئے کہ میراروزہ ہے ،ایسے گیٹ میں سے کوئی گزرا اوراس کے ذرات اس کے حلق میں پہنچ گئے ، توکیااس کاروزہ ٹوٹ جائے گا؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   اگرروزے دارنے سینی ٹائزرگیٹ میں سے گزرتے ہوئے قصداً اس کے ذرات کوکھینچ کرحلق تک نہ پہنچایا،بلکہ خودبخوداس کے ذرات حلق تک پہنچے،تواس کاروزہ نہیں ٹوٹے گااگرچہ اسے روزہ دارہونایادہو،ہاں اگرکسی روزہ دار نے قصداً اس کے ذرات کوکھینچ کرحلق تک پہنچایا اوراس وقت اسے اپناروزہ دارہونابھی یادتھا ، تواس کاروزہ ٹوٹ گیا اور اگرروزہ دارنے قصداً کھینچ کرحلق تک اس کے ذرات پہنچائے لیکن  کھینچتے وقت اسے اپناروزہ دار ہونا یاد نہ تھا ، تواس صورت میں بھی اس کاروزہ نہیں ٹوٹے گا۔

   تفصیل اس میں یہ ہے کہ  بذریعہ سانس  جوغباراوردھواں وغیرہ  حلق میں پہنچ جاتے ہیں ، ان میں روزہ ٹوٹنے کا مدار ان چیزوں کوقصداً حلق میں لے کرجانے پرہے ،جس صورت میں  یہ چیزیں اندرگئیں،اس خاص صورت  کو اپنانے کی ضرورت  تھی یانہیں  اوراس کے باعث اَغلب طورپریہ چیزیں چلی جاتی ہیں یانہیں ،ان چیزوں پرمدارنہیں ہے،پس اگرقصداً اندرلے کرجائے اورروزہ دارہونایادبھی ہوتوروزہ ٹوٹ جاتاہے اور اگر قصداً اندرلے کرنہ جائےبلکہ یہ اشیاء خود بخود اندرچلی جائیں توروزہ نہیں ٹوٹے گا اوراس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ دخول یعنی خودبخودسانس کے ذریعے ان چیزوں کے اندرجانے سے بچناممکن نہیں ، کیونکہ اگرروزہ داراپنامنہ بندبھی کرلے تب بھی ناک کے ذریعے یہ چیزیں دماغ میں چلی جائیں گی ،ہاں ادخال یعنی قصداً لے جانے سے بچناممکن ہے ، توادخال سے روزہ ٹوٹ جائے گا، پس بذریعہ سانس سینی ٹائزرکے اندرجانے کابھی یہی حکم ہوگا۔

   مجمع الانھرشرح ملتقی الابحرمیں ہے : ” (وإن دخل في حلقه غبار أو دخان أو ذباب) وهو ذاكر لصومه (لا يفطر) والقياس أن يفطر لوصول المفطر إلى جوفه وإن كان لا يتغذى به وجه الاستحسان أنه لا يقدر على الامتناع عنه فإنه إذا أطبق الفم لا يستطاع الاحتراز عن الدخول من الأنف فصار كبلل تبقى في فيه بعد المضمضة وعلى هذا  لو أدخل حلقه فسد صومه حتى إن من تبخر ببخور فاستشم دخانه فأدخله حلقه ذاكرا لصومه أفطر؛ لأنهم فرقوا بين الدخول والإدخال في مواضع عديدةلأن الإدخال عمله والتحرز ممكن ويؤيده قول صاحب النهاية إذا دخل الذباب جوفه لا يفسد صومه  لانہ لم یوجد ماھو ضد الصوم وھو ادخال الشیء من الخارج الی الباطن ‘‘ ترجمہ : اور اگر روزہ دارکے حلق میں غباریادھواں یامکھی چلی گئی اوراسے اپناروزہ دارہونا یادتھاتواس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اورقیاس یہ ہے کہ اس کاروزہ ٹوٹ جائے کہ روزہ افطارکرنے والی چیزاس کے جوف تک پہنچ چکی اگرچہ اس  کوغذاکے طورپراستعمال نہیں کیاجاتا۔ استحسان کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سے بچنے پرقادرنہیں ہے کیونکہ جب منہ بندکرے گاتوناک کے ذریعے  اندرجانے سے روکنے پرقدرت نہیں ہوگی،تویہ اس تری  کی طرح ہوگیاجوکلی کے بعدمنہ میں باقی رہ جاتی ہے اوراسی بناء پراگرحلق میں داخل کیاتواس کاروزہ ٹوٹ جائے گا،یہاں تک  کہ جس نے بخور کے ساتھ دُھونی دی اور اس کا دُھواں سُونگھا اور روزہ یاد ہوتے ہوئے حلق میں داخل کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ فقہاء نے متعدد جگہ پر دخول اور ادخال میں فرق کیا ہے کیونکہ ادخال صائم کا اپنا عمل ہے جس سے بچنا ممکن ہے اس کی تائید صاحبِ نہایہ کا یہ قول کرتا ہے کہ جب مکھی پیٹ میں داخل ہوگئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ کوئی ایسی چیز نہیں پائی گئی جو روزہ کی ضد ہو اور وُہ خارج سے کسی شے کا باطن میں داخل کرناہے۔(مجمع الانھرشرح ملتقی الابحر،کتاب الصوم،جلد 1،صفحہ 361، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :” ایک کامل عارف باﷲکے مقبرہ میں بارہ بارہ چند حضرات مل کر بعد ۴ بجے دن کے فاتحہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور بوقتِ فاتحہ ہمیشہ مزار شریف سے کچھ فاصلہ پر لوبان جلایا جاتا ہے اور حاضرین مزار شریف کے قریب کھڑے ہوکر فاتحہ پڑھتے ہیں مگر حضار میں سے کسی شخص کا ارادہ خوشبو یا دُھواں لینے کا ہرگز نہیں ہوتا، اگر بغیر قصد و ارادے کے دُھواں ناک وحلق وغیرہ میں چلا جائے تو کیا روزہ فاسد ہوجائے گا؟ ماہِ رمضان المبارک میں ایک شخص نے بیان کیا کہ اس خفیف دُھوئیں سے روزہ جاتا رہا اور کفارہ لازم آیا، اور جہاں لوبان جلتا ہے روزہ دار وہاں سے علیحدہ کھڑے ہوتے ہیں اگر چہ مکان ایک ہے۔“

   اس کے جواب میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے ارشادفرمایا:”متون وشروح و فتاویٰ عامہ کتب مذہب میں جن پر مدارِ مذہب ہے علی الاطلاق تصریحات روشن ہیں کہ دُھواں یا غبار حلق یا دماغ میں آپ چلا جائے کہ روزہ دارنے بالقصد اسے داخل نہ کیا ہو تو روزہ نہ جائے گا اگر چہ اس وقت روزہ ہونا یاد تھا۔۔۔۔۔ہاں اگر صائم اپنے قصد وارادہ سے اگریا لوبان خواہ کسی شَے کا دُھواں یاغبار اپنے حلق یا دماغ میں عمداً بے حالت نسیان صوم داخل کرے، مثلاً بخور سلگائے اور اسے اپنے جسم سے متصل کرکے دُھواں سُونگھے کہ دماغ یاحلق میں جائے تو اس صورت میں روزہ فاسد ہوگا۔۔۔۔ بالجملہ مسئلہ غبارودخان میں دخول بلا قصد و ادخال بالقصد پر مدارِ کارہے ۔ اوّل اصلاً مفسد صوم نہیں اور ثانی ضرورمفطر، اور بداہۃً واضح کہ صورت مذکورۂ سوال صورتِ دخول ہے نہ کہ شکلِ ادخال، تو اس میں انتقاضِ صوم کا حکم محض بے سند و بے اصل خیال۔(فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 489تا494،رضافاونڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ کے اس جزئیہ سے ثابت ہواکہ جس مقام پردھواں وغیرہ موجودہوکہ وہ حلق میں جائے گاوہاں جانا اگرچہ ضروری نہ ہوپھربھی جانے اوربلاقصددھوئیں وغیرہ کے سانس کے ذریعے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گاکہ مزارشریف پرحاضری کے لیے جاناکوئی ضروری نہیں تھا، اسی طرح اگروہ سبب ایساہوکہ اس کے اپنانے سے اغلب طورپر غباروغیرہ حلق میں چلے جائیں گے تب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گاجیسے چکی پیسنا،گلیوں میں چلنا،ریگستان میں سفرکرنا ، معماروں کامٹی کی دیوارگراناوغیرہ بلکہ سبب کلی بھی ہوتب بھی روزہ نہیں جائے گاجیساکہ کلی کے بعدجوتری منہ میں رہ جائے کہ اس تری کاحلق میں جانایقینی ہے اورکلی ہے کہ ہردفعہ ضرورجائے گی ۔

   چنانچہ مزیدفتاوی رضویہ میں ہے : ” پس دخولِ دخان و غبار بے قصد و اختیار کبھی کہیں پایا جائے اصلاً مفسدِ صوم نہیں ہوسکتا، نہ اس کہنے کی گنجائش کہ فلاں جگہ اتفاق دخول وہاں جانے سے ہوانہ جاتا نہ ہوتا، اور جانا قصداً تھا تو ممکن الاحتراز ہُوا۔۔۔۔دیکھو کُلی کے بعد جو تری منہ میں باقی رہتی ہے اُسے بھی شرع نے اسی تعذر تحرز کی بنا پر مفطر نہ ٹھہرایا اب وہاں یہ لحاظ ہرگز نہیں کہ یہ کُلی خود بھی ممکن الاحتراز تھی یا نہیں، اگر محض بے ضرورت کُلی کی جب بھی وُہ تری ناقضِ صوم نہ ہوگی حالانکہ ضرور کہہ سکتے تھے کہ یہ اس کا دخول اس کُلی کرنے سے ہوا، نہ کرتا نہ ہوتا، اور کُلی بے ضرورت تھی تو ممکن الاحتراز ہُوا۔۔۔۔ثم اقول: وباللہ التوفیقاس پر تو عرشِ تحقیق مستقر ہُوا کہ دخول بلا صنعہ کیفما کان (بلا قصد دخول جیسے بھی ہو۔)اصلاً صالح افطار نہیں ، ولہذا علمائے کرام نے مدارِ فرق صرف دخول و ادخال پر رکھا، دخول کا کوئی فرد مفطر میں داخل نہ کیا ۔“(فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 496،497،رضافاونڈیشن،لاھور)

   مزیدفرمایا : ” لاجرم یہاں اگر ہوگا تووہی محض دخول جسے تمام کُتب میں تصریحاً فرمایا کہ ہرگز مفسدِ صوم نہیں، بالجملہ اصو ل وفروعِ شرعیہ پر نظر ظاہر اسی طرف منجرکہ اسباب علی الاطلاق ساقط النظر، ولہذا جس طرح رمضان مبارک میں(۱) نہانا،(۲)دریا میں جانا حرام نہ ہُوا حالانکہ اس کے سبب کان میں پانی بھی چلاجاتا ہے۔ (۳)دن کو کھانا پکانا اور(۴)کاموں کے لیے آگ جلا نا حرام نہ ہوا ۔مسلمان(۵)نانبائیوں(۶)حلوائیوں، (۷)لوہاروں،(۸)سناروں وغیرہم کی دُکانیں قطعاً معطل کردینا واجب نہ ہو حالانکہ ان میں دُھوئیں سے ملاسبت ہے۔(۹)جرّاروں،(۱۰) قصابوں ، (۱۱)شکّرسازوں، حلوائیوں کا بازار ہڑتال کردینا لازم نہ ہوا کہ کثرتِ مگس کا موجب ہے۔ دن کو (۱۲)چکّی پیسنا، (۱۳) غلّہ پھٹکنا، (۱۴)باہرنکلنا ، گلیوں میں چلنا حرام نہ ہوا۔ حالانکہ وہ غالباً غبار سے خالی نہیں ہوتیں۔ یونہی(۱۵) دن کو مساجد بلکہ گھروں میں بھی جھاڑو دینا خصوصاً صدرِ اوّل میں فرش کچےہوتے تھے۔ (۱۶)عطاروں کا دوائیں کُوٹنا، (۱۷) مزار عوں کا غلّہ ہوا پر اڑا کر صاف کرنا۔(۱۸) معماروں کا مٹی کی دیوار گرانا۔ (۱۹)مسافروں کا خوب چلتی ہوئی ریگستان میں سفر کرنا۔ (۲۰) فوج  صائمین کا گھوڑوں پر سوار نرم زمینوں سے گزرنا کہ غالباً دخول غبار کے اسباب ہیں ان کی حرمت بھی کہیں مذکورنہیں بلکہ فوجی مجاہدوں کا روزہ احادیث سے ثابت اور بے ضرورت کُلی کا جواز تو صراحتاً منصوص۔ “ (فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 503،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم