مجیب: مولانا احمد سلیم
عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2478
تاریخ اجراء: 12شعبان المعظم1445 ھ/23فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
روزے کی حالت میں
حجامہ کروایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حجامہ میں
جسم کے بعض حصوں سے خون نکالا جاتا ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ البتہ
روزے کے دوران حجامہ کروانے کی وجہ سے نقاہت(کمزوری) بھی
طاری ہوجاری تی ہے، تو اگر اس کی حالت ایسی
ہو کہ اس سے اتنی کمزوری ہو جائے گی کہ اپنا روزہ مکمل کرنا
مشکل ہو جائے گا ، تو روزے میں حجامہ کروانا مکروہ ہو گا اور ایسی
صورت میں اسے چاہیے کہ افطاری کے بعد حجامہ کروائے۔
فتاوی ہندیہ
میں ہے” ولا بأس بالحجامة إن أمن على نفسه الضعف أما
إذا خاف فإنه يكره وينبغي له أن يؤخر إلى وقت الغروب وذكر شيخ الإسلام شرط الكراهة ضعف يحتاج فيه إلى الفطر “ ترجمہ : روزہ
دار کے لئے حجامہ کروانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسے
کمزروی کا خوف نہ ہو،اور اگر کمزوری کا خوف ہو تو مکروہ ہے اور
ایسی صورت میں اسے چاہئے کہ غروب تک حجامہ کروانا مؤخر کرے۔ اور شیخ الاسلام نے کراہت میں
یہ شرط لگائی کہ ایسی کمزوری کا خوف ہو کہ جس
کی بناء پر وہ روزہ توڑنے کا محتاج ہو جائے۔(فتاوی ہندیۃ،کتاب الصوم،ج 1،ص 199،200،دار الفکر،بیروت)
بہار
شریعت میں ہے” فصد کھلوانا، پچھنے لگوانا مکروہ نہیں جب کہ ضعف
کا اندیشہ نہ ہو اور اندیشہ ہو تو مکروہ ہے، اُسے چاہیے کہ غروب
تک مؤخر کرے۔(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص
997،998،مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟