مجیب:ابو محمد مفتی
علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13322
تاریخ اجراء: 19 رمضان المبارک 1445
ھ/30 مارچ 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے غلطی سےروزہ کی حالت
میں ناک میں دوائی ڈال لی یعنی مجھے یہ معلوم تھا کہ میں
روزہ سے ہوں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،
اس صورت میں میرے لئے کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی
گئی صورت میں جب روزہ ہونا یاد تھا، اس کے باوجود ناک میں
دوا ڈالی اگرچہ غلطی سے ڈالی ہو، تو اس صورت میں روزہ ٹوٹ
گیا،اس روزہ کی قضا لازم ہوگی البتہ پوچھی گئی صورت
میں کفارہ لازم نہیں آئے گا۔لہٰذا رمضان کا مہینا
گزرنے کے بعد اس روزے کی قضا کرنا آپ کے ذمہ پر لازم ہوگا۔
بدائع
الصنائع میں ہے:”ما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن المخارق الأصلية كالأنف والاذن والدبر بأن استعط أو احتقن ۔۔۔ فوصل إلى الجوف أو إلى الدماغ فسد صومه ، أما
إذا وصل إلى الجوف فلا شك فيه لوجود الأكل من حيث الصورة وكذا إذا وصل إلى الدماغ
لأنه له منفذ إلى الجوف “یعنی کوئی چیز اصلی
سوراخوں سے جوف یا دماغ تک پہنچ گئی جیسے ناک ، کان اور پاخانے کے مقام سے اس
طرح کہ اس نےناک میں دوا چڑھائی یا حقنہ لیا ۔۔۔ اور وہ جوف یا دماغ تک پہنچ گئی ،
تو اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔
جب دوا جوف تک پہنچ جائے ، تو اس صورت میں روزہ ٹوٹنے کے بارے میں
کوئی شک نہیں کیونکہ صورتاً کھانا پایا گیا اور یہی
حکم اس وقت ہے جب دوا دماغ تک پہنچ جائے کیونکہ دماغ کا جوف تک منفذ ہے۔(بدائع الصنائع
ملتقطاً، جلد2،صفحہ 204، مطبوعہ:بیروت)
تنویر
الابصار ودرمختار میں ہے:”(احتقن أو استعط ) في أنفه شيئا۔۔۔۔۔ فوصل
الدواء حقيقة إلى جوفه ودماغه ۔۔۔۔
(قضى ) في الصور كلها (فقط) “یعنی حقنہ لیا یا ناک میں کوئی
دوا چڑھائی پھر وہ حقیقۃً
جوف یا دماغ تک پہنچ گئی ، تو ان تمام صورتوں میں فقط روزہ قضا
کرے گا۔ (تنویر
الابصارودر مختار ، جلد3، صفحہ 432۔439، مطبوعہ : بیروت، ملتقطا )
فتح باب العنایہ میں ہے:”(وقضى فقط) أي من غير كفارة (إن أفطر خطأ) بأن كان ذاكرا للصوم غير قاصد
للفطر كما لو تمضمض فدخل الماء في حلقه
وإن لم يبالغ “یعنی
فقط قضا کرے گا بغیر کفارے کے اگر اس نے غلطی سے روزہ توڑ دیا
اس طرح کے اسے روزہ یاد تھا ، روزہ
توڑنے کا ارادہ نہیں تھا جیسے اگر کسی نے کلی کی تو
مبالغہ نہ کرنے کے باوجود پانی اس کے حلق میں داخل ہوگیا۔(فتح باب العنایہ،
جلد 1، صفحہ 570، مطبوعہ:دار ارقم ،بیروت)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حقنہ لیا یا
نتھنوں سے دوا چڑھائی ،۔۔۔۔ روزہ جاتا رہا “
مزیدآگے فرماتے ہیں:”کلی
کر رہا تھا بلا قصد پانی حلق سے اتر گیا یا ناک میں پانی
چڑھایا اور دماغ کو چڑھ گیا ، روزہ جاتا رہا مگر جبکہ روزہ ہونا بھول گیا ہو ، تو نہ
ٹوٹے گا اگرچہ قصداً ہو “ (بھار شریعت،جلد1، صفحہ 987، مکتبۃ المدینہ،
کراچی، ملتقطا )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟