Roza Torne Ka Kaffara Aur Uski Sharait Kya Hain?

روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم  عطاری

فتوی  نمبر: Sar-6539

تاریخ  اجراء: 14جمادی الثانی1440ھ/20فروری2019

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ اگرکوئی رمضان کاروزہ جان بوجھ کر توڑدے ، تواس کاکیاکفارہ ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   بلاعذرشرعی جان بوجھ کر روزہ توڑنا ، ناجائزوگناہ ہےاوراس سےتوبہ کرنااوراس روزے کی قضاءکرنابھی لازم ہے ، لیکن کفارہ لازم ہونے کے لئےدرج ذیل شرائط ہیں :

(1) رمضان میں ادائے رمضان کی نیت سےروزہ رکھاہو ۔

(2)روزے کی نیت صبح صادق سےپہلے(یعنی سحری کےوقت) کرلی ہو ۔

(3)شرعی مسافرنہ ہو ۔

(4) اکراہ شرعی نہ ہو ۔

(5) بغیرخطاءکے جان بوجھ کرروزہ توڑاہو ۔

(6) روزہ ٹوٹنے کاسبب کسی قابلِ جماع انسان سےاگلےیاپچھلے مقام سےجماع کرناہویاکسی مرغوب چیزکوبطورِ دوا،غذایارغبت ولذت کےکھاناپیناہو۔

(7)روزہ توڑنے کےبعداسی دن کوئی ایساامرنہ پایاجائے ، جوروزے کےمنافی ہو ۔ (جیسےحیض ونفاس)۔

(8) بلا اختیار ایسا امر بھی نہ پایا جائے ، جس کی وجہ سےروزہ نہ رکھنےکی رخصت ہو جیسےسخت بیماری۔

   البتہ یہ بھی یادرہے کہ جن صورتوں میں کفارہ لازم نہیں ہوتا ، ان میں بھی یہ شرط ہے کہ ایسا ایک ہی بار ہواہو اور اس میں معصیت کاقصد نہ کیاہو ، ورنہ ان میں بھی کفارہ لازم ہوگا ۔

   اورروزہ توڑنےکاکفارہ وہی ہے، جوظہار کاکفارہ ہےکہ لگاتار ساٹھ روزےرکھےاور اگراس پرقادرنہ ہو ، توساٹھ مسکینوں کودو وقت کاکھانا (یااس کی رقم)دے۔

   جن صورتوں میں روزےکاکفارہ لازم نہیں ہوتا ، ان کے بارےمیں درمختارمیں ہے:”وان افطرخطا۔۔ او مکرھا۔۔اواصبح غیر ناوٍ للصوم۔۔او افسدغیرصوم رمضان۔۔قضی فی الصورۃکلھافقط ترجمہ :اگرغلطی سےروزہ ٹوٹ گیایااکراہ شرعی سےروزہ توڑایاصبح روزےکی نیت کےبغیرہی کی یارمضان کےعلاوہ کاروزہ تھاتوان صورتوں میں صرف قضاء لازم ہوتی ہے۔(درمختار،کتاب الصوم،باب مایفسد الصوم،جلد3،صفحہ  429تا439، مطبوعہ کوئٹہ )

   مسافرکےروزہ توڑنےکےبارےمیں بحرالرائق میں ہے :”لونوی المسافرالصوم لیلا واصبح من غیران ینقض عزیمتہ قبل الفجرثم اصبح صائمالایحل فطرہ فی ذلک الیوم ولوافطرلاکفارۃعلیہ“ترجمہ: اگرمسافرنےرات میں نیت کی اورصبح اپنی عزیمت کو فجرسےپہلےتک باقی رکھاپھرروزےکی حالت میں صبح کی تواس کےلئےاس دن کاروزہ توڑنا ، جائزنہیں اگراس نےروزہ توڑدیاتواس پرکفارہ نہیں۔(البحرالرائق،کتاب الصوم،فصل فی عوار ض الفطر،جلد2،صفحہ506،مطبوعہ کوئٹہ )

   روزےکےکفارےکی شرائط کےمتعلق فتاوی رضویہ میں ہے : ”کسی نے بلاعذر شرعی رمضان مبارک کا ادا روزہ جس کی نیت رات سے کی تھی بالقصد کسی غذا یا دوا یا نفع رساں شےسے توڑڈالا اور شام تک کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہوا جس کے باعث شرعا آج روزہ رکھنا ضرور نہ ہوتا تو اس جرم کے جرمانے میں ساٹھ روزے پے درپے رکھنے ہوتے ہیں ۔“(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ519،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   روزےکےکفارےکی شرائط کےمتعلق مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:”رمضان میں روزہ دار مکلف مقیم نے کہ ادائے روزہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھا اور کسی آدمی کے ساتھ جو قابل شہوت ہے اس کے آگے یا پیچھے کے مقام میں جماع کیا۔۔یا کوئی غذا یا دوا کھائی یا پانی پیایاکوئی چیز لذت کے ليے کھائی تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضااور کفارہ دونوں لازم ہیں ۔۔جس جگہ روزہ توڑنےسےکفارہ لازم آتاہےاس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی سےروزہ رمضان کی نیت کی ہو، اگردن میں نیت کی اورتوڑدیاتوکفارہ لازم نہیں۔۔کفارہ لازم ہونے کے لیے یہ بھی ضرورہےکہ روزہ توڑنےکےبعدکوئی ایساامرواقع نہ ہواہو،جوروزہ کےمنافی ہویابغیراختیارایسا امرنہ پایا گیاہو،جس کی وجہ سےروزہ افطار کرنےکی رخصت ہوتی، مثلاعورت کواسی دن میں حیض یانفاس آگیایاروزہ توڑنے کےبعداسی دن میں ایسابیمارہوگیاجس میں روزہ نہ رکھنےکی اجازت ہے تو کفارہ ساقط ہے۔“(بھارشریعت، جلد1، صفحہ 991،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    مزید ارشادفرماتےہیں:”جن صورتوں میں روزہ توڑنے پرکفارہ لازم نہیں ان میں شرط ہےکہ ایک ہی بار ایساہوا ہو اورمعصیت کا قصد نہ کیاہو ورنہ ان میں کفارہ دیناہوگا۔“(بھارشریعت،جلد1،صفحہ992،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

   کفارہ ظہارکےمتعلق اللہ تعالی ارشادفرماتاہے:﴿فَمَنۡ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبْلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا فَمَنۡ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیۡنَ مِسْکِیۡنًا﴾ ترجمہ:پھرجسےبردہ نہ ملےتولگاتار دو مہینےکےروزے،قبل اس کےکہ ایک دوسرے کوہاتھ لگائیں پھرجس سےروزےبھی نہ ہوسکیں توساٹھ مسکینوں کاپیٹ بھرنا۔(القرآن،سورۃ المجادلہ، پارہ28 ،آیت4)

   روزہ توڑنےکاکفارہ ظہار والاہونےکےمتعلق حدیث پاک میں ہے : ”عن ابی هريرة ان النبی صلى الله عليه وسلم امرالذی افطر يومامن رمضان بكفارةالظهار“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ ایک شخص نےرمضان کاروزہ توڑا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسےظہارکاکفارہ اداکرنےکاحکم دیا۔(سنن دارقطنی،کتاب الصیام،باب القبلۃ للصائم،جلد3،صفحہ167،بیروت)

   روزہ توڑنےکاکفارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ بیان فرمایا:”فاعتق رقبةقال ليس عندی،قال فصم شهرين متتابعين قال لااستطيع،قال فاطعم ستين مسكينا“ ترجمہ :توایک گردن آزادکر،انہوں نے عرض کی کہ یہ میرے پاس نہیں ہےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایادومہینےکےروزےرکھو،انہوں نے عرض کی کہ مجھ میں اس کی بھی استطاعت نہیں ہےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلاؤ ۔(صحیح البخاری،کتاب النفقات،باب نفقۃ المعسر،جلد2،صفحہ808،مطبوعہ کراچی)

    روزہ توڑنےکےکفارےکےمتعلق خلاصۃالفتاوی میں ہے : ”كفارة الفطر وكفارة الظهار واحدة ، وهی عتق رقبة مؤمنة او كافرة فان لم يقدرعلى العتق فعليه صيام شهرين متتابعين،وان لم يستطع فعليه اطعام ستين مسكينا “ ترجمہ:روزہ توڑنےاور ظہارکاکفارہ ایک ہی ہےکہ مسلمان یاکافرگردن آزادکرے،اگراس پرقدرت نہ ہوتودوماہ کےلگاتار روزےرکھے اوراگراس پربھی قدرت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کوکھانادے۔

(خلاصۃالفتاوی،کتاب الصوم،الفصل الثالث،جلد 1،صفحہ 261،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم