مجیب: ابو حذیفہ محمد
شفیق عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم
عطاری
فتوی نمبر: Aqs-1814
تاریخ اجراء: 13رمضان
المبارک 1441ھ/07مئی2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا
(1)
چاند دیکھے بغیر کلینڈر کے ذریعے روزہ و عید وغیرہ
کر سکتے ہیں ؟
(2) بعض اوقات ایسا ہوتا ہے
کہ کلینڈر کے مطابق مہینا شروع ہوجاتا ہے ، لیکن اس دن چاند نظر
نہیں آتا اور دوسرے دن جب نظر آتا ہے ، تو دِکھنے میں بھی دوسرے
دن کا لگتا ہے ، توکلینڈر کے مطابق اس چاند کو دوسرے دن کا شمار کریں
گے یا پہلے دن کا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
(1)شریعت
مطہرہ میں روزہ و عید وغیرہ کے معاملات کا مدار چاند کی
رؤیت(دیکھنے) پر ہے کہ جب تک چاند نظر نہیں آئے گا ، روزہ و
عید وغیرہ نہیں ہوں گے ، کیونکہ اس کے لیے
احادیثِ صحیحہ میں ” رؤیت(آنکھ سے دیکھنے) “
کا لفظ استعمال ہوا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ
اقدس سے لے کر آج تک اسے حقیقی طور پر دیکھنا ہی
مراد لیا گیا ہے اور اسی پر عمل ہے، لہٰذا جب تک باقاعدہ
چاند نہ دیکھ لیا جائے یا اس کا شرعی طور پر ثبوت نہ
ہوجائے اس وقت تک قمری مہینا شروع نہیں ہوگا اگرچہ کلینڈر
کے مطابق شروع ہوچکا ہو ، کیونکہ ہم قرآن و حدیث کے مکلَّف
ہیں ، ماہرین فلکیات وغیرہ کی رائے کے پابند
نہیں ،لہذا عبادات کے معاملات یعنی رمضان ، عید
وغیرہ یہ سب کلینڈر کے اعتبار سے نہیں ہوں گے بلکہ
حقیقتاً رؤیت ہی کا اعتبار کیا جائے گا ۔
روزہ
و عید وغیرہ چاند دیکھ کر ہی کرنے سے
متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ نبی پاک علیہ
الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:”لا
تصوموا حتى تروا الهلال و لا تفطروا حتى تروه “ ترجمہ
: چاند دیکھے بغیر رمضان کے روزے شروع نہ کرو اور چاند دیکھے
بغیرختم نہ کرو ۔( صحیح
البخاری ، کتاب الصوم ، باب إذا رأيتم الهلال فصوموا الخ، ج 3 ، ص 27 ،
مطبوعہ دار طوق النجاۃ )
بلکہ
اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ بھی آئے ، تو بھی
محض تخمینے وغیرہ لگا کر روزہ و عید کرنے کی ہر گز اجازت
نہیں ، بلکہ پھر اس مہینے کے تیس دن مکمل کرنے کا حکم ہے
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا’’فإن
غم علیکم فأکملوا العدۃ ثلاثین یوما‘‘ترجمہ:اگر چاند تم پر پوشیدہ رہے تو تیس
دن کی گنتی پوری کرو۔(
سنن دار قطنی، کتاب الصوم،باب الصوم لرؤیۃ
الهلال،جلد2،صفحہ7،دار الکتاب العربی ،بیروت)
چانددیکھ کر ہی روزہ و عید
وغیرہ کرنے سے متعلق فقہِ حنفی کی مشہور کتاب الاختیار
میں ہے : ” (
ويجب أن يلتمس الناس الهلال في التاسع والعشرين من شعبان وقت الغروب فإن رأوه
صاموا ، وإن غمّ عليهم أكملوه ثلاثين يوما ) لقوله عليه الصلاة والسلام : '' صوموا
لرؤيته وأفطروا لرؤيته ، فإن غمّ عليكم فعدوا شعبان ثلاثين يوما “یعنی: 29 شعبان کو مغرب کے وقت چاند تلاش
کرنا لازم ہے ، لہٰذا اگر چاند دیکھ لیں ، تو روزہ رکھیں
اور اگر مطلع ابر آلود ہو ، تو اس مہینے کے تیس دن مکمل کریں ،
کیونکہ آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمانِ
عالیشان ہے: ”چاند دیکھ کر ہی روزے رکھو اور چاند دیکھ کر
ہی ختم کرو ، اگر مطلع ابر آلود ہو ، تو شعبان کے 30 دن مکمل کرو ۔‘‘(
الاختیار لتعلیل المختار ، کتاب الصوم ، جلد 1 ، صفحہ 128 ، مطبوعہ
بیروت )
(2)جس
دن چاند نظر آئے ، اُسی دن کا ہی اعتبار کریں گے ،اگرچہ بظاہر
دِکھنے میں دو دن کا ہی معلوم کیوں نہ ہوتا ہو
،کیونکہ شریعت نےحکم دیکھنے کا فرمایا ہے لہذا جب
دیکھا ، اسی دن کا شمار کریں گے اور صحابہ کرام رحمہم اللہ
بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔
چنانچہ
صحیح مسلم میں ہے : ”عن
أبي البختري قال خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة قال تراءينا الهلال فقال بعض
القوم هو ابن ثلاث وقال بعض القوم هو ابن ليلتين قال فلقينا ابن عباس فقلنا إنا
رأينا الهلال فقال بعض القوم هو ابن ثلاث وقال بعض القوم هو ابن ليلتين فقال أي
ليلة رأيتموه قال فقلنا ليلة كذا وكذا فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال
إن الله مده للرؤية فهو لليلة رأيتموه “ ترجمہ : ابو
البختری سے روایت ہے ، کہتے ہیں ہم عمرہ کے لیے گئے، جب
بطن نخلہ میں پہنچے تو چاند دیکھ کر کسی نے کہا تین رات
کا ہے، کسی نے کہا دو رات کا ہے۔ تو ہم ابن عباس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہما سے ملے اور ان سے واقعہ بیان کیا،
فرمایا: تم نے دیکھا کس رات میں تھا ؟ ہم نے کہا: فلاں رات
میں، تو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا
کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس
کی مدت دیکھنے سے مقرر فرمائی ہے ، لہٰذا اس رات کا قرار
دیا جائے گا جس رات کو تم نے اسے دیکھا تھا ۔(
الصحیح لمسلم ، کتاب الصوم ، باب بیان انہ لا اعتبار بکبر الھلال ، ج
3 ، ص 127 ، مطبوعہ بیروت )
امام
اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن
فتاویٰ رضویہ میں چاند دیکھنے کی
غلطیوں کو بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر فرماتے ہیں : ”
قیاسات و قرائن: مثلاً چاند بڑا تھا(یا) روشن تھا (یا)دیر
تک رہا تو ضرور کل کا تھا۔ آج بیٹھ کر نکلا تو ضرور پندرھویں
ہے۔اٹھائیسویں کو نظر آیا تھا مہینہ تیس کا
ہوگا۔ اٹھائیسویں کو بہت دیکھا نظر نہ آیا
مہینہ انتیس کا ہوگا۔ یہ قیاسات تو حسابات کی
وقعت بھی نہیں رکھتے،پھر ان
پر عمل محض جہل و زلل ۔حدیث میں ہے ، حضور پر نور سیّد
عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (
یعنی )قُربِ قیامت کی علامات سے ہے کہ ہلال پُھولے ہوئے
نکلیں گے۔ یعنی دیکھنے میں بڑے معلوم ہوں
گے۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ
428 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟