مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3210
تاریخ اجراء: 28ربیع الثانی 1446ھ/01نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی مسافر رمضان المبارک کے مہینے میں مقیم ہو جائے مثلاً اپنے گھر آ جائے اور اس نے روزہ نہ رکھا ہو ،تو کیا اس کے لئے شام تک کھانا پینا جائز ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر شرعی مسافرنے رخصت پر عمل کرتے ہوئے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تھا اور دن میں وہ مقیم ہوگیاتوچونکہ اب وہ مسافر نہ رہا لہذاسفر کے سبب اسے روزہ نہ رکھنے کی جو رخصت حاصل تھی وہ بھی باقی نہ رہی، اب اگر وہ ضحوی کبریٰ سے پہلے مقیم ہوا ہےاور صبح صادق سے اب تک منافی روزہ کوئی کام بھی قصدا نہیں پایا گیا توچونکہ رمضان کے ادا روزے کی نیت کا وقت غروب آفتاب سے لیکر ضحوی کبریٰ سے پہلے تک ہےلہذا اس پر روزے کی نیت کرلینا واجب ہے اور نیت یہ کرے کہ میں صبح سے روزہ دار ہوں، جب روزے کی نیت کرلے گا تو واضح ہے کہ اب دن بھر کھانا پینا وغیرہ جائز نہیں ہوگا۔
اور اگر ضحوی کبریٰ کے بعد مقیم ہوا یا ضحوی کبریٰ سے پہلے ہی مقیم ہوا لیکن صبح صادق کے بعد منافیٔ روزہ کوئی کام پایا گیا تھا تو اب اگرچہ وہ اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا ،البتہ اس مقدس ماہ کی حرمت کے پیش نظراسے غروب آفتاب تک کھانےپینے وغیرہ کی اجازت نہیں بلکہ روزہ دار کی طرح رہنا واجب ہے،اور بعد رمضان اس روزے کی قضا بھی لازم ہوگی۔
روزوں کی فرضیت سے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔(پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت 183)
مسافر شرعی کو سفر کی حالت میں روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے،چنانچہ مراقی الفلاح میں ہے” وللمسافر۔۔۔ فلہ الفطر “ ترجمہ : مسافر کو روزہ چھوڑنے کا اختیار ہے۔
اس عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے” أي سفرا شرعيا وهو الذي تقصر فيه الصلاة ‘‘ترجمہ:یعنی سفر شرعی اختیار کرنے والے مسافرکو اور یہ وہ سفر ہے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص 685،686، دار الكتب العلمية، بيروت)
مسافر کا سفر ختم ہوجائے تو اس کےحکم سے متعلق الجوہرۃ النیرہ میں ہے:’’(واذا قدم المسافر أو طھرت الحائض فی بعض النھار امسکا بقیۃ یومھما)ھذا اذا قدم المسافر بعد الزوال أو قبلہ بعد الاکل ،أما اذا کان قبل الزوال والاکل فعلیہ الصوم ‘‘ترجمہ : اور جب دن کے بعض حصے میں مسافر واپس آجائے یا حائضہ پاک ہوجائے تو یہ دونوں بقیہ دن (کھانے پینے سے) رکے رہیں، یہ اس وقت ہے جب مسافر زوال کے بعد یا زوال سے قبل کچھ کھانے کے بعد واپس آیا ہو ، بہرحال جب زوال اور کھانے سے قبل واپس آئے تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ،کتاب الصوم،ج 1،ص 144، المطبعة الخيرية)
جن صورتوں میں روزہ فاسد نہیں ہوتا،ان کے متعلق تنویرالابصارودرمختارمیں ہے "(اذااکل الصائم اوشرب اوجامع )حال کونہ(ناسیا)فی الفرض والنفل قبل النیۃ اوبعدھاعلی الصحیح۔۔۔۔۔۔(لم یفطر)"ترجمہ:جب روزہ دارکھالے یاپی لی یاجماع کرلے،بھولنے کی حالت میں ،فرض روزے میں اورنفل روزے میں نیت سے پہلے یانیت کے بعد،صحیح قول کے مطابق تواس کاروزہ نہیں ٹوٹے گا۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،ج03، ص419-20-28،مطبوعہ:کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟