Ramazan Mein Shaitan Ko Kahan Qaid Kiya Jata Hai?

رمضان میں شیطان کو کہاں قید کیا جاتا ہے

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:pin:5236

تاریخ اجراء:11شوال المکرم1438ھ/06جولائی2017ء

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ رمضان المبارک کےفضائل میں سے یہ بھی ہے، کہ شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ انہیں کہاں جکڑا جاتا ہے؟ دنیا میں ، آسمان پر، زیرِ زمین، جہنم میں یا کہیں اور؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ماہِ رمضان بہت فضائل کا حامل ہے، احادیث طیبہ میں  اس کے کثرت سے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں ، انہی میں سے ایک فضیلت صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں یہ بتائی گئی ہے ،کہ جب رمضان المبارک آتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

     بخاری و مسلم میں ہے:’’اذا دخل رمضان، فتحت ابواب الجنۃ وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین‘‘ترجمہ: جب رمضان المبارک شروع ہوتاہے، تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے‘‘۔( صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، جلد 1، صفحہ 463، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

     مسلم شریف میں ’’صفدت الشیاطین‘‘کے الفاظ بھی موجود ہیں ، جن کے معنی ہیں: شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شہر رمضان، جلد 1، صفحہ 346، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

     محدثین کرام و علمائے عظام نے اس حدیث مبارکہ کی شرح میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں :

     ایک قول کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے، کہ حقیقی طور پہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ( یہ بھی کہا گیا ہے، کہ تمام شیاطین کو قید نہیں کیا جاتا، بلکہ سرکش شیاطین قید ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض روایات میں ’’مردۃ الشیاطین‘‘کے الفاظ آئے ہیں )۔

     بہر صورت یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قید کر کے کہاں رکھا جاتا ہے؟ اس کے متعلق در منثور، شعب الایمان، کنز العمال، فضائل شہر رمضان للبیہقی وغیرہ میں یہ روایت منقول ہے کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: اے رضوان: جنتوں کے دروازے کھول دو، اے مالک: امت محمدی کے روزہ داروں کے لئے جہنم کے دروازے بند کر دو اور اے جبریل: زمین پر اترو، سرکش شیاطین کو قید کرو، ان کو طوق اور ہتھکڑیوں کے ساتھ جکڑ کر سمندر میں پھینک دو، تا کہ وہ میرے حبیب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے امتیوں کے روزوں میں فساد نہ پھیلا سکیں۔ ( بعض روایات میں ’’سمندر کی گہرائیوں ‘‘میں پھینک دینے کا ذکرہے)۔

     جبکہ دوسرے قول کے مطابق یہ حدیث مجازی معنی پر محمول ہے، یعنی روزے کی وجہ سے شہوت، غصے اور دیگر گناہوں کا سبب بننے والی قوتِ حیوانیہ ختم ہو جاتی ہے، اور نیکیوں کی طرف مائل کرنے والی قوتِ عقلیہ بیدار ہوجاتی ہے، اس وجہ سے انسانی نفوس، شیاطین کی طرف سے دھوکا کھانے اور ان کے وسوسے قبول کرنے سے رک جاتے ہیں  اورشیاطین اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے، تو یہ حصول مقصد کے معاملے میں ایسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے انہیں قید کر دیا گیا ہو۔

     حدیث کے اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونے کے متعلق  شرح نووی میں ہے : ’’(وصفدت الشیاطین) فقال القاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی: یحتمل انہ علی ظاھرہ وحقیقتہ، وان تفتیح ابواب الجنۃ وتغلیق ابواب جھنم وتصفید الشیاطین علامۃ لدخول الشھر وتعظیم لحرمتہ ویکون التصفید لیمتنعوا من ایذاء المؤمنین والتھویش علیھم‘‘ ترجمہ: (شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے) علامہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں احتمال ہے کہ یہ اپنے ظاہری و حقیقی معنی پر محمول ہو اور بے شک جنت کے دروازوں کو کھولنا ،اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دینا،اور شیاطین کو جکڑ دیا جانا ،اس ماہِ مبارک کے داخل ہونے کی علامت، اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لئےہے اور شیاطین کو اس لئے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مؤمنوں کو ایذا دینے اور انہیں فتنے میں ڈالنے سے باز رہیں‘‘۔( شرح نووی علی مسلم، جلد 7، صفحہ 188، مطبوعہ:بیروت)

     بعض شیاطین کو قید کرنے کے متعلق عمدۃ القاری میں ہے : ’’وقیل: المسلسل بعض الشیاطین وھم المردۃ لا کلھم، کما تقدم فی بعض الروایات، ۔۔ وقیل: لا یلزم من تسلسلھم وتصفیدھم کلھم ان لا تقع شرور ولا معصیۃ، لان لذلک اسبابا غیر الشیاطین، کالنفوس الخبیثۃ والعادات القبیحۃ والشیاطین الانسیۃ‘‘ترجمہ: ایک قول کے مطابق بعض سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، نہ کہ تمام شیاطین کو،جیسا کہ پیچھے بعض روایات میں بیان ہو چکا، ۔۔ اور کہا گیا ہے کہ: تمام شیاطین کو جکڑنے اور قید کر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب برائیاں اور گناہ نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کے اسباب تو شیاطین کے علاوہ اور بھی ہیں۔ جیسے: خبیث نفوس، بری عادات اور انسانی شیاطین ‘‘۔(عمدۃ القاری، کتاب الصوم، جلد 8، صفحہ 27، دار الحدیث، ملتان)

     شیاطین کو سمندر میں پھینک دینے کا حکم دیا جاتا ہے، چنانچہ شعب الایمان، الترغیب و الترہیب، کنز العمال وغیرہ کی طویل حدیث مبارکہ کا کچھ حصہ یہ ہے: ’’ان الجنۃ لتنجد وتزین من الحول الی الحول لدخول شھر رمضان، فاذا کانت اول لیلۃ من شھر رمضان، ھبت ریح من تحت العرش، ۔۔ ویقول اللہ عز وجل: یا رضوان: افتح ابواب الجنان، ویا مالک: اغلق ابواب الجحیم علی الصائمین من امۃ محمد ویا جبریل: اھبط الی الارض، فاصفد مردۃ الشیاطین  وغلھم بالاغلال، ثم اقذفھم فی البحار، حتی لا یفسدوا علی امۃ محمد حبیبی صیامھم‘‘ترجمہ: بے شک جنت کو ماہِ رمضان کی آمد کے لئے ایک سال سے دوسرے سال تک آراستہ و مزین کیا جاتا ہے، پس جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے، ۔۔ اور اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اے رضوان! جنتوں کے دروازے کھول دواور  اے مالک! امتِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کر دو اور اے جبریل ( علیہ السلام)! زمین پر اترو اور سرکش شیاطین کو قید کرو، ان کو طوق اور ہتھکڑیوں کے ساتھ جکڑ کر سمندر میں پھینک دو، تا کہ وہ میرے حبیب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے امتیوں کے روزوں میں فساد پیدا نہ کر سکیں ‘‘۔(شعب الایمان، کتاب الصیام، جلد 5،صفحہ 276، مکتبۃ الرشد، ریاض)

     کنز العمال کے الفاظ یہ ہیں :’’ثم اقذف بھم فی لجج البحار‘‘( یعنی شیاطین کو جکڑ کر) سمندر کی گہرائیوں میں پھینک دو ‘‘۔( کنز العمال، کتاب الصوم، فصل فی فضلہ وفضل رمضان، جلد 8، صفحہ 586، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

     حدیث شریف کا مجازی معنی بیان کرتے ہوئے علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’(وسلسلت الشیاطین) ای قیدت بالسلاسل مردتھم وقیل: کنایۃ عن امتناع تسویل النفوس واستعصائھا عن قبول وساوسھم، اذ بالصوم تنکسر القوۃ الحیوانیۃ، التی ھی مبدا الغضب والشھوات الداعیین الی انواع السیئات وتنبعث القوۃ العقلیۃ المائلۃ الی الطاعات، کما ھو مشاھد ان رمضان اقل الشھور معصیۃ واکثرھا عبادۃ‘‘ ترجمہ: (شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) یعنی ان میں سے سرکش شیاطین کو زنجیروں کے ساتھ قید کر دیا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق ( شیاطین کو قید کرنا) انسانی نفوس کے گمراہ ہونے اور شیطانی وسوسوں کے قبول کرنے سے بچنے سے کنایہ ہے، کیونکہ روزے کی وجہ سے مختلف برائیوں کا سبب بننے والے غصے اور شہوتوں کو پیدا کرنے والی قوتِ حیوانیہ ختم ہو جاتی ہے اور نیکیوں کی طرف مائل کرنے والی قوتِ عقلیہ بیدار ہو جاتی ہے۔ جس طرح مشاہدہ ہے کہ دیگر مہینوں کی بنسبت ماہِ رمضان میں گناہ کم اور عبادت زیادہ ہوتی ہے ‘‘۔( مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصوم، جلد 4، صفحہ 387، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

     شرح صحیح بخاری لابن بطال میں ہے :’’(فتحت ابواب الجنۃ وسلسلت الشیاطین) معنیین: احدھما: انھم یسلسلون علی الحقیقۃ، فیقل اذاھم ووسوستھم ولا یکون ذلک منھم، کما ھو فی غیر رمضان وفتح ابواب الجنۃ علی ظاھر الحدیث والثانی: علی المجاز ویکون المعنی فی فتح ابواب الجنۃ ما فتح اللہ علی العباد فیہ من الاعمال المستوجب بھا الجنۃ من الصلاۃ والصیام وتلاوۃ القر آن،۔۔ وکذلک قولہ: (سلسلت الشیاطین)یعنی: ان اللہ یعصم فیہ المسلمین او اکثرھم فی الاغلب عن المعاصی والمیل الی وسوسۃ الشیاطین وغرورھم‘‘ترجمہ: (جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے) اس حدیث کے دو معنی ہیں:  ایک ظاہری: وہ یہ کہ انہیں حقیقۃً قید کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کاشر اور وسوسے کم ہو جاتے ہیں اور ان کی طرف سے یہ معاملات رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں کی طرح نہیں ہوتے نیز جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوسرا مجازی: یعنی جنت کے دروازے کھولنے سے مراد اللہ عزوجل کا اس ماہِ مبارک میں اپنے بندوں کو نماز، روزے اور تلاوتِ قرآن وغیرہ جنت میں لے جانے والے اعمال کی توفیق عطا فرمانا ہے، ۔۔ یونہی شیاطین کو جکڑنے سے مراد: اللہ عزوجل کا اس ماہِ مبارک میں تمام یا اکثر مسلمانوں کو گناہوں اور شیطانی وساوس اور ان کے دھوکے کی طرف مائل ہونے سے بچانا ہے ‘‘۔( شرح صحیح البخاری لابن بطال، کتاب الصیام، جلد 4، صفحہ 20، مکتبۃ الرشد، ریاض)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم