Raat Mein Qaza Roze Ki Niyat Ki, Magar Sehri Mutlaq Roze Ki Niyat Se Ki To Kya Hukum Hai?

رات میں قضا روزے کی نیت کی، مگر سحری بھولے سے مطلق روزے کی نیت سے کی تو کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12653

تاریخ اجراء:11جمادی الاخری1444ھ/04جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی رات میں یہ  نیت تھی کہ اگر میری سحری میں آنکھ کھلی تو میں نے قضا روزہ رکھنا ہے، لیکن سحری کے وقت زید قضا روزے کی نیت کرنا ہی بھول گیا اور مطلق روزے کی نیت سے اس نے روزہ رکھا، پھر صبح اسے  یاد آیا کہ میں نے تو آج قضا روزہ رکھنا تھا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس صورت میں زید دن میں اس قضا روزے کی نیت کرسکتا ہے؟ کیا دن میں نیت کرلینے سے اس کا وہ قضا روزہ ادا ہوجائے گا؟؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید کا وہ قضا روزہ ہی ادا ہوگا۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ قضا روزے کی نیت رات میں یا عین صبح صادق کے وقت کرنا ضروری ہے اس کے بعد قضا روزے کی نیت معتبر نہیں۔ صورتِ مسئولہ میں زید نے رات ہی میں قضا روزے کی نیت کرلی تھی پھر اگرچہ سحری اس نے مطلق روزے کی نیت سے کی لیکن کہیں بھی اس قضا روزے کی نیت سے رجوع کرنا نہیں پایا گیا، لہذا قضا روزے کی نیت رات ہی میں کرلینے سے اس کا وہ  روزہ ، قضا روزہ شمار ہوگا۔

   قضا روزے کی نیت رات ہی میں کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل إلى الضحوة الكبرى)“یعنی رمضان، نذرِ معین اور نفل روزوں  کی نیت رات سےلے کر  ضحوہ کبری سے پہلےپہلے  تک کی جاسکتی ہے ۔

    (فيصح أداء صوم رمضان إلخ) کے تحت رد المحتار  میں ہے:”قيد بالأداء؛ لأن قضاء رمضان وقضاء النذر المعين أو النفل الذي أفسده يشترط فيه التبييت والتعين“یعنی یہاں شارح نے اسے اداء سے مقید کیا کیونکہ رمضان کے قضا روزے، نذرِ معین کے قضا روزے یا وہ نفل جسے شروع کرنے کے بعد توڑ دیا گیا ہو ان تمام روزوں کی نیت اور تعیین رات ہی میں ہوجانا ضروری ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصوم، ج 03، 393، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”و شرط القضاء و الکفارات ان یبیت و یعین کذا فی النقایۃ“ یعنی قضاء اور کفاروں کے روزے میں یہ ضروری ہے کہ رات میں ان کی نیت کی جائے اور انہیں معین کیا جائے، جیسا کہ نقایہ میں مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصوم، ج 01، ص196،  مطبوعہ پشاور)

   رات میں روزے کی نیت درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس نیت سے رجوع کرنا نہ پایا جائے۔ جیسا کہ بحر الرائق، محیط برہانی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”والنظم للاول“ قضاء رمضان والكفارات وجزاء الصيد والحلق والمتعة والنذر المطلق لا يصح بمطلق النية ، ولا بنية مباينة ، ولا بد فيه من التعيين لعدم تعين الوقت له ، ولا بد فيه أيضا من النية من الليل أو ما هو في حكمه ، وهو المقارنة لطلوع الفجر بل هو الأصل ؛ لأن الواجب قران النية بالصوم لا تقديمها ، وإنما جاز التقديم للضرورة ۔۔۔۔۔ ثم اعلم أن النية من الليل كافية في كل صوم بشرط عدم الرجوع عنها حتى لو نوى ليلا أن يصوم غدا ثم عزم في الليل على الفطر لم يصبح صائما فلو أفطر لا شيء عليه إن لم يكن رمضان ، ولو مضى عليه لا يجزئه ؛ لأن تلك النية انتقضت بالرجوع“ یعنی رمضان کے قضا روزے، کفارے کے روزے،  حرم کا شکار  کرنے کے بدلے میں لازم روزے، تمتع کی قربانی نہ کرنے کے بدلے میں لازم روزے، نذر مطلق یہ سب روزے مطلق نیت سے اور مبائن نیت سے درست نہیں ہوتے۔ ان روزوں میں تعیین بھی ضروری ہے کیونکہ ان کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں۔ یونہی ان روزوں کی ادائیگی کے لیے رات میں یا طلوعِ فجر کے وقت نیت کا ہونا ضروری ہے بلکہ اصل وقت طلوعِ فجر کے وقت میں نیت ہونا  ہی  ہے کیونکہ واجب ہے کہ روزے کی نیت ابتدائی وقت سے ملی ہو اس سے پہلے نہ ہو مگر ضرورت کی بنا پر نیت  پہلے کرنے  کو جائز قرار دیا ہے۔۔۔۔پھر تم جان لو کہ ہر روزے کی درست ادائیگی کے لیے رات میں کی جانے والی وہی نیت معتبر ہوگی   جس کے بعد رجوع نہ پایا جائے یہاں تک کہ اگر کسی نے رات میں یہ نیت  کی کہ وہ کل روزہ رکھے گا پھر رات ہی میں یہ نیت  کرلی کہ وہ روزہ نہیں رکھے گا تو وہ صبح روزہ دار نہیں ہوگا پس اگر اس نے اگلے دن کچھ کھایا پیا تو اس پر کچھ لازم نہ ہوگا اگر وہ رمضان کا دن  نہ ہو  ۔ اور اگر اس نے جاری رکھا تو وہ اسے کفایت نہیں کرے گا کیونکہ نیت سے رجوع ہونے کے سبب وہ نیت باقی نہ رہی۔ (بحر الرائق، کتاب الصوم، ج 03، ص 458، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”رات میں نیّت کی پھر اس کے بعد رات ہی میں کھایا پیا، تو نیّت جاتی نہ رہی وہی پہلی کافی ہے پھر سے نیّت کرنا ضرور نہیں۔ ۔۔۔۔ اگر رات میں روزہ کی نیّت کی پھر پکّا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیّت جاتی رہی۔ اگر نئی نیّت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا رہا اورجماع سے بچا تو روزہ نہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔ ادائے رمضان اور نذرمعیّن اور نفل کے علاوہ باقی روزے، مثلاً قضائے رمضان اور نذر غیرمعیّن اورنفل کی قضا (یعنی نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تھا اس کی قضا) اور نذر معیّن کی قضا اور کفّارہ کا روزہ اور حرم میں شکار کرنے کی وجہ سے جو روزہ واجب ہوا وہ اور حج میں وقت سے پہلے سر منڈانے کا روزہ اور تمتع کا روزہ، ان سب میں عین صبح چمکتے وقت یا رات میں نیّت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو روزہ رکھنا ہے، خاص اس معیّن کی نیّت کرے اور اُن روزوں کی نیّت اگر دن میں کی تو نفل ہوئے پھر بھی ان کا پورا کرنا ضرور ہے توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔ اگرچہ یہ اس کے علم میں ہو کہ جو روزہ رکھنا چاہتا ہے یہ وہ نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوگا۔ “(بہارِ شریعت، ج 01، ص 971-969، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” قضائے رمضان، نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ کے روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یا رات میں کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا۔(فتاوٰی فیض رسول،  ج 01، ص 512، شبیر برادرز،  لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم