Piyas Ki Wajah Se Roze Chorna

پیاس کی وجہ سے روزے چھوڑنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2569

تاریخ اجراء: 05رمضان المبارک1445 ھ/16مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھ پر روزے فرض ہو چکے ہیں مگر میں پانی پئے  بغیر نہیں رہ سکتی ،طبیعت بہت خراب ہو جاتی ہے ۔ کیا میں شرعی معذور کہلاؤں گی ؟  اور ميرے لئے روزے سے متعلق  کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عام طور پر  روزے میں بھوک ، پیاس  کا احسا س ہوتا ہی ہے،اور مشقت والے کام کرنے کے سبب پیاس  کی شدت میں اضافہ اور    کمزوری    زیادہ  ہوجاتی ہے۔اگر آپ کے ساتھ بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہو کہ پیاس کی وجہ  سے قابل برداشت  کمزوری ہو اور محنت و مشقت والے کام سے تکلیف  بڑھ جاتی ہو   تو ایسی صورت میں آپ کو     روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ  حکم یہ ہوگا  کہ آپ روزہ رکھیں اور    روزے کے دوران ہرگز کوئی ایسا   مشقت والا کام نہ کریں  جس کے سبب پیاس کی شدت میں اضافہ ہو اور  روزہ پورا کرنا مشکل ہو ۔

   البتہ!   اگر آپ کے ساتھ واقعی کوئی ایسی کیفیت ہو  یا کو ئی ایسی بیماری ہو جس میں آپ کو    بار بار پیاس لگتی ہو اور   پیاس کی شدت اتنی  بڑھ جاتی ہوکہ پانی    نہ    پینے  کے سبب جان جانے  یا   شدید قسم کا  نقصان یا   نا قابل برداشت  تکلیف   پہنچنے کا صحیح اندیشہ ہوتو ایسی صورت میں فی الحال آپ کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی۔مگر  جب آپ کی یہ کیفیت   نہ رہے اور حالت نارمل ہوجائے  تواب      روزہ رکھنا فرض ہوگا اور پچھلے  تمام  چھوڑےہوئے روزوں کی قضا  کرنی ہوگی۔

   خیال رہے  پیا س کی شدت کے سبب  شدید قسم کا نقصان اور تکلیف پہنچنے کا محض وہم   و گمان کافی نہیں،بلکہ اس کا ظن غالب ہونا ضروری ہے اور ظن غالب تین طرح سے حاصل ہوتا ہے ،یا تو  اس کی کوئی واضح علامت ہو یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو یا کسی ایسے   ماہر طبیب کے بتانے سے معلوم ہو،جس کی خبرشریعت کے نزدیک معتبرہو(یعنی  غیرفاسق  ماہرنے بتایاہواوراگرغیرفاسق میسرنہ ہوتووہ ایساہوکہ دینی معاملات میں لاپرواہ نہ ہوکہ بات بات پرروزے سے منع کرتاہو اوراس کی بات پرغالب گمان بھی ہوکہ ٹھیک ہی کہہ رہاہے ،اوراس صورت میں احتیاط اس میں ہے کہ دوتین ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کرلیاجائے ۔)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں:’’رمضان کے دنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں، جس سے ایسا ضعف آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نانبائی کو چاہیے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دن میں آرام کرے۔ یہی حکم معمار و مزدور اورمشقت کے کام کرنے والوں کا ہے کہ زیادہ ضعف کا اندیشہ ہو تو کام میں کمی کر دیں کہ روزے ادا کرسکیں۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ5،صفحہ998،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   پیاس کی وجہ سے روزہ چھوڑنے سے متعلق،فتاوی عالمگیری میں ہے:’’الأعذار التي تبيح الإفطار۔۔۔ منھا العطش والجوع كذلك إذا خيف منهما الهلاك أو نقصان العقل‘‘ترجمہ:وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا جائز ہے،ان میں سے بھوک اور پیاس بھی ہے کہ جب بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہونے یا عقل میں نقصان کا خوف ہو۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب الصوم،صفحہ206-207،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’اگر واقعی (کوئی ) کسی ایسے مرض میں مبتلاہے جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھا ناد ے تو مستحب ہے ثواب ہے جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا جتنے روزے قضا ہُوئے ہیں ادا کرے گا۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد10،صفحہ520،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  بہار شریعت میں لکھتے ہیں :’’ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونےیا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔۔۔ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے،محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:(1)اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا(2)اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا(3) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“ (بھار شریعت، جلد1، حصہ5،صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم