Namaz e Maghrib Se Pehle Roza Iftar Karna Chahiye Ya Namaz Ke Baad?

نماز مغرب سے پہلےروزہ  افطار کرنا چاہیے یا نماز کے بعد؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-838

تاریخ اجراء:28شعبان المعظم1444ھ/18مارچ 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بار میں کہ روزہ نماز ِ مغرب سے پہلےافطار کرنا چاہیے یا  نماز مغرب کے بعد ؟

   اگر نماز مغرب سے پہلے افطار  کرنا چاہیے، تو پھر مؤطا شریف کی  اس حدیث  کا کیا جواب ہو گا کہ أن  عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان كانا يصليان المغرب حين ينظران إلى الليل الأسود، قبل أن يفطرا، ثم يفطران بعد الصلاة ترجمہ:حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ  عنہما جب رات کی سیاہی کو دیکھتے ،تو افطار کرنے سے قبل نماز مغرب ادا فرماتے اور پھر اس کے بعد روزہ افطار فرماتے۔

   براہ کرم !احادیث طیبہ  کی روشنی میں مدلل جواب عطا فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ِ قولیہ و فعلیہ،آثار ِصحابہ ،نیز فقہی جزئیات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ غروب آفتاب کا ظن غالب ہو جانے کے  فوراً بعد افطار ی کرنا مستحب و مسنون ہے، لہذا  نماز مغرب کے بعد نہیں،بلکہ نمازِ مغرب سے  پہلے  روزہ افطار کرنا چاہیے ۔

   احادیث مرفوعہ :

    (1)سنن ترمذی میں ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے: كان النبي صلى اللہ عليه وسلم يفطر قبل أن يصلي على رطبات، فإن لم تكن رطبات فتميرات، فإن لم تكن تميرات حسا حسوات من ماء “ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے چند ترکھجوروں سے روزہ افطار فرماتے ، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں ،تو خشک چھواروں سے روزہ افطار فرماتے ، اور اگر چھوارے بھی نہ ہوتے ،تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرمالیتے۔(سنن الترمذی،جلد2،صفحہ 71،حدیث 696،دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   اس حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے شارح بخار ی علامہ سید محمود رضوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فیوض الباری میں رقمطراز ہیں :اس حدیث سے واضح ہوا نماز مغرب سے پہلے روزہ افطار کیا جائے ۔نماز  مغرب کے بعد افطار کرنا سنت کے خلاف ہے (فیوض الباری ،جلد3،صفحہ 680،مطبوعہ لاھور)

   مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اس سے دو مسئلے  معلوم ہوئے:ایک یہ کہ روزہ دار افطار پہلے کرے نماز مغرب کے بعد افطار کرنا سنت کے خلاف ہے۔۔۔الخ (مرأۃالمناجیح،جلد3،صفحہ167،قادری پبلشرز،لاھور)

    (2)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہاں تک روایت کیا ہے کہ میں نے ایک دفعہ بھی ایسا نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  روزے کی حالت میں نماز مغرب ادا فرمائی ہو ،بلکہ سیدعالم  صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب سے قبل ہی افطار  فرما لیتے، پھر اس  کے بعد نمازِ مغرب ادا فرماتے ۔مشہور محدث ابن حبان علیہ الرحمۃ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں :ما رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قط صلى صلاة المغرب حتى يفطر ولو على شربة من ماء ترجمہ:میں نے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ِ مغرب  ادا فرماتے ہوئے  نہ دیکھا ،مگر یہ کہ آپ اس سے پہلے ہی  افطار فرما چکے ہوتے ،اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ کے ساتھ  افطار فرماتے ۔(صحیح ابن حبان ،جلد8،صفحہ 274،مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

    (3)حدیث قولی :صحیح بخاری میں محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت سہل بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لايزال الناس بخير ما عجلوا الفطرترجمہ:لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے ۔(صحیح البخاری،جلد3،صفحہ36،حدیث 1957،دار الطوق النجاۃ،بیروت)

   مفتی احمدیارخان علیہ رحمۃالرحمٰن اس حدیث مبارک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:افطار جلدی کرنے کی دو صورتیں ہیں:ایک یہ کہ افطار نماز مغرب سے پہلے کیا جائے،نماز پہلے پڑھ لینا بعد میں افطار کرنا اس حدیث کے خلاف ہے۔ (مرأۃالمناجیح ،جلد3،صفحہ163،قادری پبلشرز،لاھور)

   شارح بخار ی علامہ سید محمود رضوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فیوض الباری میں رقمطراز ہیں :افطار میں جلدی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب سورج غروب ہونے  کا یقین ہو جائے فوراً افطار کر لیا جائے ۔غروب کے بعد دیر نہ کی جائے ،(مفہوم )یہ کہ نماز مغرب سے قبل افطار کر لیا جائے ۔ مغرب کی  نماز پڑھ  کر افطار کرنا بداہت ِ حدیث کے خلاف ہے ،اسی طرح تاروں کے روشن ہونے تک افطار میں دیر کرنا، مکروہ ہے ۔(فیوض الباری ،جلد3،صفحہ 679،مطبوعہ لاھور)

   آثارِ صحابہ :

    (1)مشہور تابعی ابورجاء  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے روایت کرتے ہیں : كان ابن عباس  يبعث مرتقبا يرقب الشمس، فإذا غابت أفطر، وكان يفطر قبل الصلاة ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک شخص کو اس بات پر مقرر فرماتے کہ وہ سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرے (پس جیسے ہی )سورج غروب ہوتا (اور وہ شخص خبر دیتا ) تو حضرت  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فورا افطار  فرماتے،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز ِ مغرب سے پہلے افطار فرمالیتے تھے ۔(الصیام للفریابی،صفحہ 57،مطبوعہ ھند)

    (2)حضرت ابو برده اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں  مروی ہے کہ : كان يأمر أهله أن يفطروا، قبل الصلاة ترجمہ:حضرت ابو برده رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے گھر والوں کو نماز (مغرب)سے قبل افطار کا حکم ارشاد فرماتے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد2،صفحہ 348،مکتبۃ الرشد ،الریاض)

    (3)حضرت حمید حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے بارے میں روایت کرتے ہیں  کہ: لم يكن ينتظر المؤذن في الإفطار وكان يعجل الفطرترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزہ افطار کرنے کےلیے  مؤذن کا انتظار نہیں فرماتے تھے،اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سورج غروب ہونے  کے بعد )جلدی روزہ افطار فرما لیتے تھے ۔(الصیام للفریابی،صفحہ 57،مطبوعہ ھند)

   فقہی جزئیات سے تائید:

   علما ئےکرام نے  غروب آفتاب کا یقین ہوجانے کے بعد نماز مغرب تو کجا  اذان مغرب کے انتظار سے بھی منع کیاہے اور اذان سے قبل ہی افطارکی تعلیم ارشاد فرمائی ہے۔چنانچہ فقیہ ملت مفتی محمد جلال الدین امجدی علیہ الرحمۃ فتاوی فیض الرسول میں لکھتے ہیں :سورج ڈوبنے کے بعد فوراً بلاتاخیر افطار کریں ،اذان کا انتظار نہ کریں اور جو لوگ اذان سے غروب آفتاب پر مطلع ہوتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اذان ہوتے  ہی فوراً افطار کریں ختم اذان  تک افطار کو مؤخر نہ کریں۔ (فتاوی فیض الرسول،جلد1،صفحہ 513،شبیر برادرز،لاھور)

   فقہائے کرام نے  نہ صرف اذان ِ مغرب بلکہ دعائے افطار کے  بارے میں  بھی یہی ارشاد فرمایا کہ اسے بعد میں  پڑھا جائے اور روزہ پہلے  افطار کر  لیا جائے، چنانچہ  امام  اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃفتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں: مقتضائے سنّت یہی ہے کہ بعد غروب جو خُرمے یا پانی وغیرہ از قبل نماز افطار معجل کرتے ہیں، اُس میں اور علم بغروب شمس میں اصلاًفصل نہ چاہئے،یہ دُعائیں اس کے بعد ہوں۔(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ642، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) 

   سوال میں ذکر کی  گئی روایت کے جوابات :

   باقی جہاں تک سوال میں ذکر کی گئی حدیث پاک کا تعلق ہے،  تو محدثین ِ کرام  نے اس کے  مختلف جوابات ارشاد فرمائے ہیں:

    (1)حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما  کبھی کبھا ر افطار کو نماز مغرب سے مؤخر فرماتے ،تا کہ لوگ نماز مغرب سے پہلے  افطار کو فرض  و واجب  نہ سمجھ لیں ،ورنہ ان حضرات کا معمول یہی تھا  کہ یہ نماز مغرب سے پہلے ہی افطار فرما لیتے ۔اس توجیہ کی تائید  ان روایات سے ہوتی ہے کہ جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سےوقت افطار کے فوراً بعد افطار کی تعلیم دینا منقول ہے ۔

    (2)حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما كا افطار كو نماز ِ مغرب سے مؤخر كرنا اس صورت پر محمول  ہے کہ جب یہ حضرات بوقت ِ افطار مسجد  میں ہوتے اور ان کے پاس روزہ افطار کرنے کےلیے  کجھور یا پانی وغیرہ  کوئی چیز میسر نہ ہوتی ، تو اس صورت میں یہ حضرات پہلے نماز  ادا فرما لیتے اور پھر اس کے بعد گھر جا کر روزہ افطار کر لیتے ۔

   مشہورمحدث  علی بن محمدالمعروف بملا علی قاری علیہ الرحمۃ  (متوفی1014ھ)اس حدیث  کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: أما ما صح أن عمر وعثمان رضي اللہ عنهما  كانا برمضان يصليان المغرب حين ينظران إلى الليل الأسود ثم يفطران بعد الصلاة فهو لبيان جواز التأخير لئلا يظن وجوب التعجيل، ويمكن أن يكون وجهه أنه  صلى اللہ عليه وسلم كان يفطر في بيته ثم يخرج إلى صلاة المغرب، وأنهما كانا في المسجد ولم يكن عندهما تمر ولا ماء “ترجمہ:بہرحال  حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے جو صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ حضرات رمضان میں  رات کی سیاہی کو دیکھ کر نماز  مغرب ادا فرماتے، پھر نماز کے بعد روزہ افطار کرتے،تو اس کامحمل یہ ہے کہ یا تو تاخیر کا جواز بیان کرنے کےلیے ایسا  فرماتے تا کہ روزہ  جلدی افطار کرنے کو واجب  گمان نہ  کر لیا جائے،دوسرا  محمل یہ بھی ہو سکتا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشانہ ِ اقدس میں روزہ افطار فرما کر نماز مغرب کےلیےتشریف لاتے اور یہ حضرات پہلے سے ہی مسجد میں  ہوتے اور ان کے پاس افطار  کےلیے کجھور یا پانی وغیر ہ  نہ ہوتا۔(لہذا !یہ افطار کیے بغیر ہی نماز ادا کرتے )(مرقاۃ المفاتیح،جلد4،صفحہ1385، دار الفکر، بیروت)

   اسی حوالے سے مفتی احمد یا ر  خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنہماکبھی بعد نماز مغرب افطار کرتے تھے یا تو بیان جواز کے لیے تاکہ لوگ نماز سے پہلے افطار کو فرض نہ سمجھ لیں یا اس لیے کہ اتفاقًا اس وقت افطار کرنے کے لیے کچھ موجود نہ ہوتا۔بہرحال نماز سے پہلے افطار سنت ہے اور نماز کے بعد افطار جائز ، مگر خلاف سنت،ہاں اگر کچھ موجود نہ ہو ،تو بعد نماز افطار کرلے۔ (مرأۃالمناجیح ،جلد3،صفحہ167،قادری پبلشرز،لاھور)

   تطبیق کی تائیدی روایت:

   حمید الحارث روایت کرتے ہیں کہ : كنا عند أنس وكان صائما " فدعا بعشائه، فالتفت ثابت ينظر إلى الشمس وهو يرى أن الشمس لم تغب، فقال أنس لثابت: لو كنت عند عمر لأحفظك ترجمہ:ہم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر تھے اور آپ کا روزہ تھا ،پس آپ نے کھانا منگوایا ،جس پر حضرت ثابت سورج کی طرف  متوجہ ہوئے، آپ یہ گمان کر رہے تھے کہ گویا ابھی سورج تو غائب نہیں ہوا ،اس پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ثابت کو ارشاد فرمایا: اگر تم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس حاضر ہوتے،تو (وہ بھی ایسا ہی کرتے ) حالانکہ وہ  تجھ سے زیادہ احتیاط کرنے والے تھے۔(الصیام للفریابی،صفحہ 56،مطبوعہ ھند)

   قیس بن حازم سے روایت ہے کہ : أتي عمر بن الخطاب بإناء فيه شراب عند الفطر، فقال لرجل: «اشرب لعلك من المسوفين، تقول سوف سوفترجمہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ افطار کے وقت ایک برتن لے کر آئے ، جس میں مشروب تھا ،اور ایک شخص کو فرمایا :یہ پی لو ۔کہیں تم تاخیر کرنے والوں میں سے نہ ہو نا  ،جو یہ کہیں  کہ  ابھی افطار کرتا ہوں ، ابھی افطار کرتا ہوں۔(الصیام للفریابی،صفحہ55،مطبوعہ ھند)

    (3)تیسرے جواب سے قبل یہ بات پیش نظر رہے کہ جس  طرح لفظ ِ افطار کا  اطلاق نماز مغرب سے پہلے استعمال کیے جانے   والے پانی اور کجھور پر ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق اس کھانے پر بھی ہوتا ہے، جو روزہ داررات کو تناول کرتا ہے ۔اب اس تفصیل کی روشنی میں اشکال کا جواب یہ ہے کہ  اس حدیث مبارکہ میں   جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما افطار  سے قبل نماز مغرب ادا فرماتے ،تو اس سے مطلقاً افطار کی نفی نہیں بلکہ شام کے کھانے کی نفی مقصود ہے یعنی مراد  یہ ہے کہ  یہ حضرات باقاعدہ کھانا، تو نماز کے بعد کھاتے ،البتہ کجھور یا پانی وغیرہ  سے  معمولی افطاری نماز ِ مغرب سے پہلے ہی فرمالیتے۔ اس تفصیل کی تائید اس بات سے  ہوتی ہے  کہ جس طرح اشکال میں  ذکر کی گئی روایت  میں  یہ مذکور ہےکہ حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز مغرب کے بعد  افطار فرماتے تھے ،اسی طرح مصنف ابن شیبہ کی روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما  نماز مغرب سے پہلے  افطار فرماتے تھے ۔اب اوپر  ذکر کی گئی تفصیل کےمطابق دونوں روایات جمع ہو جائیں  گی ،کہ جن روایات  میں  نماز مغرب سے پہلے افطار کی نفی کی گئی ہے، وہاں شام کا کھانا مراد ہے ،اور جہاں   نماز مغرب سے پہلے افطار کرنا بتایا گیا ہے ، وہاں  معمولی کجھور پانی کے ساتھ افطار کرنا، مراد ہے ۔

   امام  اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لفظ افطار کا مرادی معنی بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں :کبھی افطار مقابل سحور  اس کھانے کو کہتے ہیں، جو صائم شام کو کھاتا ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ642، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) 

   اشکال میں ذکر   کی گئی حدیث مبارک کا ایک  محمل بیان کرتےہوئے  مفتی احمد یا ر  خان نعیمی علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں : حضرت عمر و عثمان رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں افطار سے مراد کھانا تناول کرنا ہے یعنی افطار تو نماز سے پہلے کرلیتے تھے اور کھانا بعد نماز کھاتے تھے،بہرحال حدیث واجب التاویل ہے۔ (مرأۃالمناجیح،جلد3،صفحہ167،قادری پبلشرز،لاھور)

   حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے نماز ِ مغرب سے پہلے افطار کرنے کے حوالے مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے : أن عمر وعثمان كانا يصليان المغرب إذا رأيا الليل كانا يفطران قبل أن يصليا ترجمہ:حضرت عمر  اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما   جب رات کی تاریکی  دیکھتے تو نما ز مغرب ادا فرماتے ،اور نماز سے قبل ہی روزہ افطار کرتے ۔     (مصنف ابن ابی شیبہ،جلد2،صفحہ 348،مکتبۃ الرشد ،الریاض)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم