مجیب: سید
مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-657
تاریخ اجراء:14ربیع الثانی1444 ھ /10نومبر2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بلا عذرِ شرعی نفل روزہ توڑنا بھی ناجائز و گناہ ہے،البتہ اگر کوئی
شرعی عذر پایا جائے ،توعذر کی بعض صورتوں میں نفل روزہ
ضحوہ کبریٰ سے پہلے تک اور بعض صورتوں میں عصر سے پہلے تک توڑنے
کی اجازت ہوتی ہے، لیکن بہرحال اس کی قضاء بعد میں
رکھنی ہوگی۔
صدرالشریعہ مفتی امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا،
ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا
مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ
توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو
کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوہ کبریٰ سے پہلے
توڑے بعد کو نہیں۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب
توڑ سکتا ہے اور اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔“ (بہارِ شریعت ، جلد1، صفحہ 1007،مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟