Nabeena Ko Sadqa e Fitr Dene Ka Hukum

نابینا کو صدقہ فطر دینے کا شرعی حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12127

تاریخ اجراء: 20رمضان المبارک1443 ھ/22اپریل 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری خالہ کا بالغ بیٹا ہے جو بیماری کی وجہ سے نابینا ہو گیا ہے، اس کا کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے۔ تو کیا میں اسے صدقہ فطر دے سکتا ہوں ؟؟  رہنمائی فرمادیں۔سائل: (via، میل)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر وہ لڑکا سیدیا ہاشمی نہیں ہے اورشرعی فقیر بھی ہے( یعنی اس کی ملکیت میں قرض اور حاجتِ اصلیہ نکال کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت برابر کسی قسم کا زائد سامان موجود نہیں ہے) تو اس صورت میں آپ اسے صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:(باب المصرف)ای مصرف الزکاۃ و العشر(ھو فقیر، و ھو من لہ ادنی شیء)ای دون نصاب یعنی زکوٰۃ اور عشر کا ایک مصرف فقیر بھی ہے اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے جونصاب سے کم مال کا مالک ہو۔

    (ای مصرف الزکاۃ و العشر)کے تحت رد المحتار میں ہے:وھو مصرف ایضاً لصدقۃ الفطر و الکفارۃ و النذر و غیر ذلک من الصدقات واجبۃ کما فی القھستانی “ یعنی یہی مصرف اسی طرح صدقہ فطر، کفارہ، نذر وغیرہ صدقاتِ واجبہ کا بھی ہے، جیسا کہ قہستانی میں مذکور ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار ،کتاب الزکاۃ، ج03،ص333، مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کی قدر ہو تو اُس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو، مثلاً رہنے کا مکان پہننے کے کپڑے خدمت کے لیے لونڈی غلام، علمی شغل رکھنے والے کو دینی کتابیں جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں جس کا بیان گزرا۔ یوہیں اگر مدیُون ہے اور دَین نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے، تو فقیر ہے اگرچہ اُس کے پاس ایک تو کیا کئی نصابیں ہوں۔ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 924، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم