مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی
نمبر: Sar-7774
تاریخ اجراء: 28 رجب المرجب 1443 ھ / 02
مارچ 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس
مسئلے کےبارے میں کہ وضو خانہ ،استنجا خانہ،جوتے اتارنے کی جگہ جو فنائے
مسجد کے اندر ہیں ، تو کیا معتکف اس جگہ بلا ضرورت جا سکتا ہےیا
نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اصلِ
مسجد (یعنی وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لیے خاص کرکے وقف ہوتی
ہے) سے متصل وقف شدہ جگہ جو ضروریات و مصالحِ مسجد کے لیے وقف ہوتی
ہے ، جسے فنائے مسجد کہا جاتا ہے ، اس میں بنے ہوئے وضو خانہ ، استنجا خانہ اور
جوتے اتارنے کی جگہ پر معتکف بلا ضرورت بھی جا سکتا ہے کہ ان جگہوں پر
جانا مسجد سے باہر جانا نہیں ، اس لیے کہ اس معاملہ میں فنائے مسجد
، مسجد کے حکم میں ہے۔
چنانچہ صدرالشریعہ مفتی
محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’فِنائے مسجد جو جگہ مسجدسے باہَراس سے مُلحَق
ضروریاتِ مسجدکے لیے ہے، مَثَلًا: جوتا اتارنے کی جگہ اور غُسْل
خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتِکاف نہیں ٹوٹے گا۔“مزیدآگے
لکھتے ہیں : ”فنائے مسجداس مُعامَلہ میں حکمِ مسجد میں ہے۔
‘‘ ( فتاویٰ
امجدیہ ، کتاب الصوم ، ج 1 ، ص 399 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی
)
یونہی
معتکف کے فنائے مسجد میں جانے کے متعلق شیخ الاسلام و المسلمین
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”جب وہ مدارس متعلّقِ مسجد، حدودِ مسجد کے اندرہیں
اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل
سے صحنوں کاامتیاز کردیاہے، تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی
نہیں ، یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کو جانا ، جائز کہ وہ گویا
مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے۔وھذا ما قال الامام الطحاوی
انّ حجرۃ امّ المؤمنین من المسجد، فی ردّ المحتار عن البدائع لو
صعد ای: المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانّھا منہ لانّہ یمنع
فیھا من کلّ مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ
من زوایا المسجد‘‘یعنی یہی بات امام طحاوی
نے فرمائی کہ اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہا کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے۔ ردالمحتارمیں
بدائع سے ہے کہ اگر معتکف منارہ پرچڑھا،توبالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا ،کیونکہ
منارہ مسجد کاحصہ ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر
وہ عمل مثلاً: بول وغیرہ منع ہے ، جومسجد میں منع ہے، تویہ مسجد
کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ
، باب الوتر و النوافل ، ج 7 ، ص 453 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھو ر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟