مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13329
تاریخ اجراء:26رمضان المبارک1445ھ/06اپریل 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ
شرعی مسافر اگر ضحوی
کبری سے پہلے اپنے وطن اصلی
میں پہنچ جائے، اور اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا بھی
نہ ہو، تو کیا اس صورت میں
مسافر پر اس دن کا روزہ رکھنا
لازم ہوگا؟ یا اس صورت میں بھی اُسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی؟
شریعت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی
ہے۔
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اُس مسافر پر لازم
ہوگا کہ وہ ضحوہ کبری سے پہلے پہلے
اُس دن کے روزے کی نیت کرے کہ میں صبح سے روزہ سے ہوں ۔ البتہ اگر صورتِ مسئولہ میں وہ مسافر
اُس دن کا روزہ نہیں رکھتا، تب بھی اُس پر فقط اُس ایک روزے
کی قضا لازم ہوگی۔
چنانچہ ہدایہ وغیرہ کتبِ فقہیہ
میں اس حوالے سے مذکور ہے: ”( وإذا نوى المسافر الإفطار ثم قدم المصر قبل الزوال فنوى الصوم أجزأه ) لأن
السفر لا ينافي أهلية الوجوب ولا صحة الشروع ( وإن كان في رمضان فعليه أن يصوم
) لزوال المرخص في وقت النية ؛ ألا ترى أنه لو كان مقيما في أول اليوم ثم سافر
لا يباح له الفطر ترجيحا لجانب الإقامة فهذا أولى ، إلا أنه إذا أفطر في المسألتين
لا تلزمه الكفارة لقيام شبهة المبيح۔“ یعنی جب مسافر افطار کی نیت کرے پھر
زوال سے پہلے وہ شہر میں داخل ہوکر روزے کی نیت کرلے تو اُس کا
روزہ درست ادا ہوگا، کیونکہ سفر روزہ واجب ہونے کی اہلیت کے
منافی نہیں اور نہ ہی روزہ شروع ہونے کے منافی ہے۔
اور اگر ایسا رمضان کے روزے میں ہو تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس دن کا
روزہ رکھے کہ نیت کے وقت میں رخصت کا سبب بننے والا امر زائل ہوچکا
ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اگر وہ دن کے شروع میں
مقیم ہو پھر سفر شروع کرے تو اقامت کی جانب کو ترجیح دیتے
ہوئے اُس مسافر کے لیے اُس دن کا روزہ چھوڑنا جائز نہیں، تو
یہاں بدرجہ اولیٰ یہ حکم ہوگا، مگر یہ کہ اگر وہ ان
دونوں ہی صورتوں میں روزہ افطار کرلے
تو اُس پر روزہ چھوڑنے کا شبہہ پائے جانے کی بنا پر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔(الهداية في شرح بداية المبتدي، کتاب
الصوم، ج 01، ص 125، دار احياء التراث العربي،
بيروت)
شرح الوقایۃ میں
ہے: ” (مسافر قدم) ۔۔۔۔۔ وأما إذا كان قبل
الفطر في وقت النية فلزمه النية والصوم، لزوال المرخص في وقت النية،
لكن لو أفطر لا كفارة عليه، لقيام شبهة المبيح ۔“ یعنی مسافر کی واپسی ہوئی
۔۔۔۔۔پس اگر نیت کے وقت میں( کچھ کھانے
پینے سے پہلے ہی اُس کی اپنے شہر میں واپسی ہوئی
ہو ) تو مسافر پر اُس دن کے روزے کی نیت کرنا اور روزہ رکھنا لازم
ہوگا کہ نیت کے وقت میں رخصت کا سبب بننے والا امر زائل ہوچکا
ہے۔ البتہ اگر وہ افطار کرلیتا ہے تو اس پر کفارہ نہیں کیونکہ اباحت
افطار میں شبہ موجود ہے ۔(فتح باب العناية بشرح "النُّقاية"،کتاب الصوم، ج01،ص590، دار الأرقم، بیروت، ملتقطاً)
بہارِ شریعت میں ہے:” مسافر نے ضحوہ
کبریٰ سے پیشتر اقامت کی اور ابھی کچھ کھایا
نہیں تو روزہ کی نیّت کر لینا واجب ہے۔ “(بہار شریعت، ج01، ص1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟