Mehman ka Mezban Ki Khatir Nafil Roza Torna Kaisa Aur Us Nafil Roze ki Qaza Ka Hukum

مہمان کا میزبان کی وجہ سے نفل روزہ توڑنا کیسا ؟ کیا اُس نفل روزے کی قضا لازم ہوگی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12975

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1445 ھ/29اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے نفل روزہ رکھا لیکن صبح سات بجے اسے اپنے کسی عزیز کے گھر مہمان بن کر جانا پڑا،  جس کی وجہ سےزید  نے مجبوراً وہ روزہ توڑدیا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید پر اُس روزے کی قضا لازم ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں زید پر اُس نفل روزے کی قضا لازم ہے۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نفل روزے کو بغیر کسی عذرِ شرعی کے توڑنا ، ناجائز و گناہ ہے، البتہ مہمان اگر میزبان کے ساتھ نہ کھائے تو اُسے اذیت ہوگی، اس لیے  یہ نفل روزہ توڑنے کے لیے عذر ہے، بشرطیکہ مہمان کو اس روزے کی قضا کرلینے پر اعتماد ہو اور وہ یہ نفل روزہ ضحوہ کبریٰ  سے پہلے توڑے۔  واضح ہوا کہ  پوچھی گئی صورت میں زید نے وہ نفل روزہ خواہ عذر کے سبب توڑا تھا  یا بغیر عذر کے، بہر صورت اُس نفل روزے کی قضا کرنا زید کے ذمہ پر لازم ہے ، نیز جان بوجھ کر بغیر کسی عذرِ شرعی کے نفل روزہ توڑنے کی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ زید پر اس گناہ سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے۔

   نفل روزہ توڑنے کی صورت میں اُس کی قضا لازم ہے۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ”كنت أنا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة أبيها، فقالت: يا رسول الله، إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه، قال اقضيا يوما آخر مكانه“ ترجمہ: میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں ، ہمارے سامنے پسندیدہ کھانا آیا تو ہم نے کھانا کھا لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا مجھ سے سبقت لے گئیں اور وہ اپنے والد کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم دونوں روزے سے تھیں، ہمارے سامنے ہمارا پسندیدہ کھانا آیا  تو ہم نے کھا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس کے بدلے ایک دن کے روزے کی قضا کرو۔(سنن الترمذي، ابواب الصیام ، باب ما جاء فی ایجاب الخ ، ج03، ص103، مصر)

   مہمان روزہ افطار کرے تو اسے روزے کی قضا کرنا ہوگی۔جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، درِ مختار  وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:والنظم للاول“ ذكر الرازي عن أصحابنا أن الإفطار بغير عذر في صوم التطوع لا يحل هكذا في الكافي۔ وهو الأصح كذا في محيط السرخسي وهو ظاهر الرواية هكذا في النهر الفائق۔ والضيافة فيما روي عن أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - عذر ، وهو الأظهر هكذا في الكافي۔ قالوا والصحيح من المذهب أنه إن كان صاحب الدعوة ممن يرضى بمجرد حضوره ، ولا يتأذى بترك الإفطار لا يفطر ، وإن كان يعلم أنه يتأذى بترك الإفطار يفطر ويقضي وقال الشيخ الأجل شمس الأئمة الحلواني أحسن ما قيل في هذا الباب أنه إن كان يثق من نفسه بالقضاء يفطر دفعا للأذى عن أخيه المسلم ، وإن كان لا يثق من نفسه بالقضاء لا يفطر ، وإن كان ترك الإفطار أذى المسلم ، وهذا إذا كان الإفطار قبل الزوال فأما بعده فلا يفطر ۔یعنی امام رازی علیہ الرحمہ نے ہمارے اصحاب کے حوالے سے یہ مسئلہ ذکر کیا کہ بغیر کسی عذر کے نفل روزہ توڑنا حلال نہیں، ایسا ہی کافی میں مذکور ہے اور یہی بات اصح ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں مذکور ہے اور یہی ظاہر الروایۃ ہے جیسا کہ نہر الفائق میں مذکور ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد علیہما الرحمہ کی روایت کے مطابق مہمان نوازی روزہ توڑنے کے لیے عذر ہے، اور یہی بات زیادہ ظاہر ہے جیسا کہ کافی میں مذکور ہے۔ فقہائے کرام علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ صحیح مذہب یہ ہے کہ اگر میزبان ان افراد میں سے ہو  جو مہمان کے آنے پر ہی خوش ہوجائے اور مہمان کے نہ کھانے سے اُسے تکلیف نہ پہنچے تو مہمان روزہ نہ توڑے۔ اور اگر مہمان کو معلوم ہو کہ اس کے روزہ نہ توڑنے سے میزبان کو اذیت ہوگی تو   روزہ توڑدے اور بعد میں اس روزے کی قضا کرے۔ امام شمس الائمہ حلوانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اس باب میں بہترین بات جو کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر مہمان کو روزے کی قضا کرنے پر بھروسہ ہو تو وہ اپنے مسلمان بھائی سے اذیت کو دور کرنے کے لیے روزہ توڑدے۔ اور اگر خود پر قضا ادا کرنے کا بھروسہ نہیں  تو روزہ نہ توڑے اگرچہ روزہ نہ توڑنے سے مسلمان کو تکلیف محسوس ہو ۔ یہ اختلاف اس صورت میں ہے  جب  زوال سے پہلے روزہ توڑنا ہو، زوال کے بعد روزہ نہیں توڑنے کی اجازت نہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصوم، ج 01، ص 208،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحوہ کبریٰ سے پہلے توڑے ، بعد کو نہیں ۔(بہار شریعت، ج 01، ص  1007، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بغیر کسی عذرِ شرعی کےنفل روزہ توڑنا،  جائز نہیں  جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:(ولا يفطر) الشارع في نفل (بلا عذر)۔یعنی نفل روزہ شروع کرنے والا بغیر  کسی عذر کے روزہ نہ توڑے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے  تحت رد المحتار  میں ہے:”إذا شرع في صوم التطوع لا يجوز له الإفطار بلا عذر لأنه إبطال العمل۔“یعنی جب کوئی شخص نفل روزہ شروع کردے تو اب اسے بغیر کسی عذر کے روزہ توڑنا،  جائز نہیں ہے کہ یہ  عمل کو باطل کرنے والا کام  ہے۔(رد المحتار مع الدرالمختار ، کتاب الصوم، ج2،ص429،مطبوعہ بیروت)

   فتح القدیر، تبیین الحقائق میں بغیر کسی عذر کے نفل روزہ توڑنے کے گناہ ہونے کے حوالے سے مذکور ہے: (والنظؐم للاول) ”أنه يمنع ؛ لأنه يمنعه الجماع ويجعله آثما لما فيه من إبطال العمل۔یعنی روزے سے ہونا خلوتِ صحیحہ ہونے سے مانع ہے کیونکہ روزہ جماع سے روکنے والا ہے اور اس صورت میں نفل روزہ توڑنے والا گنہگار ہوگا کیونکہ اس میں عمل کو باطل کرنا ہے۔  (فتح القدير، کتاب النکاح، باب المہر، ج03،ص334،دار الفكر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم