Mariz Roze Ka Fidya Dene Ke Bad Tandrust Ho Kar Inteqal Kar Jaye To ?

فدیہ دینے کے بعد طاقت لوٹ آئی مگر روزہ نہ رکھا اور انتقال ہوگیا، تو اب کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12112

تاریخ اجراء: 17رمضان المبارک1443 ھ/19اپریل 2022  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ نے زندگی میں ہی اپنے قضا روزوں کا فدیہ دے دیا، لیکن ہندہ کی نیت یہ تھی کہ اگر میں صحت یاب ہوگئی تو میں ان روزوں کی قضا کرلوں گی۔ پھر جب وہ صحت یاب ہوئی تو اس نے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کی یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اورفدیہ دینے کی کوئی وصیت بھی نہیں کی۔

   اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ہندہ نے پہلے جو روزوں کا فدیہ دیا تھا کیا وہ فدیہ ان روزوں کی طرف سے شمار ہوجائے گا؟ یا پھر ہندہ کے ورثاء نئے سرے سے ان روزوں کا فدیہ ادا کریں؟؟ رہنمائی فرمادیں۔سائلہ: فائزہ (via،میل)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ یاد رہے کہ روزے کے بجائے اس کا فدیہ ادا کرنے کا حکم فقط شیخِ فانی کے لیے ہے، مطلق مریض کے لیے یہ حکم نہیں۔ شیخِ فانی وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ حقیقتاً اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہی نہ ہو، نہ سردی میں نہ گرمی میں، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو۔ ایسے شیخِ فانی کے لیے شرعاً حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ روزے کا فدیہ ادا کرے۔

   لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر ہندہ شیخِ فانیہ نہیں تھی تو یہ دیا گیا فدیہ نفلی تھا، اور اگر شیخِ فانیہ بھی تھی جب بھی دوبارہ صحت لوٹ آنے پر وہ دیا گیا فدیہ باقی  نہ رہا بلکہ ہندہ پران روزوں کی قضا لازم تھی، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق فدیہ دینے کے بعد اگر طاقت لوٹ آئے تو وہ فدیہ صدقہ نفل ہوجاتا ہے اور پھر سے روزے رکھنا اس مریض پر واجب ہوتا ہے۔

   البتہ صورتِ مسئولہ میں ورثاء اگر اپنی طرف سے ہندہ کے ان روزوں کا فدیہ ادا کردیتے ہیں توان کا ایسا کرنا بھی شرعاً جائز اور ایک عمدہ عمل ہے، اگرچہ ورثاء پر ایسا کرنا واجب نہیں۔

   جو شیخِ فانی نہ ہو اس کا روزے کا فدیہ دینا مستحب ہے جبکہ اسے روزے کا بدل نہ سمجھے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”اگر واقعی کسی ایسے مرض میں مبتلاہے جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھا نادے تو مستحب ہے ، ثواب ہے ، جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا جتنے روزے قضا ہوئے ہیں ادا کرے گا۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 521، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   شیخِ فانی کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روزبروز کمزور ہی ہوتا جائے گا، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اُس میں اتنی طاقت آنے کی اُمید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا، اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھاناکھلانا اس پرواجب ہے یا ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے۔“ (بہارشریعت ،ج01،ص1006، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فدیہ دینے کے بعد اگر طاقت لوٹ آئے تو پھر سے روزے رکھنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : ”ولو قدر علی الصیام بعد ما فدی بطل حکم الفداء الذی فداہ حتی یجب علیہ الصوم ھکذا فی النھایۃ “ یعنی مریض اگر فدیہ دینے کے بعد روزوں پر قادر ہوجائے تو وہ جو فدیہ دے چکا اس کا حکم باطل ہوجائے گا یہاں تک کہ اس پر روزہ رکھنا واجب ہوگا، ایسا ہی نہایہ میں مذکور ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم،ج 01، ص 207، مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے ،تو فدیہ صدقہ نفل ہوکر رہ گیا ان روزوں کی قضا رکھے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 1006، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

  انتقال کے بعد میت کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کے حوالے سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے:ولو فات صوم رمضان بعذر المرض أو السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه ۔۔۔۔ وأدرك من الوقت بقدر ما فاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصي بالفدية كذا في البدائع ويطعم عنه وليه لكل يوم مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير كذا في الهداية۔ فإن لم يوص وتبرع عنه الورثة جاز ، ولا يلزمهم من غير إيصاء كذا في فتاوى قاضي خان۔“یعنی جس کا رمضان کا روزہ مرض یا سفر کے عذر کی بنا پر قضا ہوا اور اس کا وہ مرض اور سفر جاری رہا یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوا تو اس روزے کی قضاء لازم نہیں ۔۔۔۔ ہاں! اگر مریض شفا یاب ہوگیا تھا یا پھر مسافر سفر سے لوٹ آیا تھا اور اس نے روزے کی قضاء کرنے کے وقت کو بھی پالیا تھا تو اس صورت میں ان تمام چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء اس کے ذمہ لازم ہوگی پس اگر اس نے روزے نہ رکھے یہاں تک کہ اسے مرض الموت نے آلیا تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ ان روزوں کے فدیہ کی وصیت کرے"بدائع"اور اس کا ولی ہر دن ایک مسکین کو گندم سے نصف صاع اور کھجور یا جو سے ایک صاع کی مقدار صدقہ کرےاور اگر اس نے وصیت نہ کی لیکن ورثا تبرعاً اس کی طرف سے فدیہ دے دیں تب بھی جائز ہے، اگر چہ بغیر وصیت کے ورثاء پر یہ فدیہ دینا لازم نہ تھا"فتاویٰ قاضی خان"۔ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الصوم،ج 01، ص 207، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مر گئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی وصیّت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے، مگر نہ رکھے تو وصیّت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجہ اَولیٰ وصیّت کرنا واجب ہے اور وصیّت نہ کی، بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔(بہارشریعت ،ج01،ص1005، مکتبہ المدینۃ، کراچی)

   نوٹ:روزے سے متعلق ضروری احکام جاننے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب”فیضانِ رمضان، صفحہ 71 تا 158“سے”احکامِ روزہ“کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم