مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8800
تاریخ اجراء: 26شعبان المعظم1445ھ/08
مارچ2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین
اس مسئلےکےبارے میں کہ ایک شخص نےرمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف
کی منت مانی ، لیکن کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف نہ کیا، یہاں تک کہ منت پوری کیے بغیر
اس شخص کا انتقال ہو گیا اور بوقتِ انتقال اس کی ادائیگی وغیرہ کی کوئی وصیت بھی
نہیں کی، تو کیا اس کے
بالغ ورثاء اپنی ذاتی رقم
سےاس شخص کی طرف سے نماز، روزہ کی
طرح اس منتِ اعتکاف کا فدیہ بھی ادا کرسکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس شخص نےرمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کی
منت مانی ، لیکن منت پوری
کیے بغیر اس کا انتقال ہو گیا، تو اس کے بالغ ورثاء اپنی طرف سے اس مرحوم شخص
کی منتِ اعتکاف کا فدیہ بھی ادا کر سکتے ہیں، بلکہ
یہ تو اس کی قبر و آخرت کی
مدد ہو گی اور خود یہ ورثاء بھی اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے اور
اس کا فدیہ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اعتکاف کے فدیہ کی نیت سے
کسی مستحقِ زکوۃ کو ہر روز کے
اعتبار سے ایک، ایک صدقہ فطر کی مقدار فدیہ ادا کریں
۔
میت کی طرف سے منتِ اعتکاف کا فدیہ
ادا کرنے کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”لو نذر اعتكاف شهر فمات اطعم لكل يوم
نصف صاع من برّ او صاعًا من تمر او شعير ان اوصى كذا فی السراجية ويجب عليه
ان يوصی هكذا فی البدائع وان لم يوصِ واجازت الورثة جاز ذلك“یعنی
اگر کسی شخص نے ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی،
پھر ( منت پوری کیے بغیر) مرگیا ،تو کسی شرعی فقیر کو ہر دن کے
بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک
صاع چھوہارے یا جَو (یعنی ایک صدقہ فطر کی مقدار فدیہ)
دیا جائے، جبکہ مرنے والا وصیت کرگیا ہو، بلکہ مرنے والے پر وصیت
کرجانا واجب ہےاوراگر اس نے وصیت نہیں کی تھی،
مگر(بالغ)ورثاء نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا،تو یہ بھی
جائز ہے۔(الفتاوى الھندیہ، جلد1، صفحہ214،مطبوعہ کوئٹہ)
علامہ
علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:”الحاصل: ان ماکان عبادۃ بدنیۃ فان الوصی یطعم عنہ بعد موتہ عن کل واجب کالفطرۃ
والمالیۃ کالزکاۃ یخرج عنہ القدر الواجب و المرکب کالحج یحج
عنہ رجلا من مال المیت“یعنی
خلاصہ کلام یہ ہے : اگر وہ بدنی عبادت ہو، تو وصی اس کے مرنے کے بعد میت کی طرف سے
ہر واجب کے بدلے صدقہ فطر کی طرح
کھانا کھلائے (یعنی صدقہ فطر کی مقدار فدیہ ادا
کرے)، اور اگر مالی عبادت ہو ،جیسا کہ زکوۃ، تو میت کی طرف سے واجب (زکوۃ)
کی مقدار فدیہ ادا کرے اور
اگر (بدنی و مالی سے) مرکب عبادت ہو ، جیسا کہ حج، تو وصی میت کے مال سے اس کی طرف سے کسی شخص کو
حج کروائے۔
مذکورہ عبارت کے الفاظ"یطعم عنہ"کے تحت علامہ ابنِ
عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”من الثلث لزوما ان اوصى والا جوازا ۔۔۔
في القهستاني ان الزكاة والحج والكفارة من الوارث تجزيه بلا خلاف ای ولو بدون وصيته“یعنی اگروہ وصیت کر ے، تو
لازمی طور پر ایک تہائی مال سے فدیہ ادا کرے، ورنہ(یعنی اگر وہ وصیت نہ کرے، تو ) پھر بھی
میت کی طرف سے فدیہ دینا جائز ہے ، "قہستانی"
میں ہے کہ وارث کی جانب سے زکوۃ، حج اور کفارہ بغیر کسی
اختلاف کے اُسےکفایت کر ےگا، اگرچہ میت نے وصیت نہ کی ہو۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد3، صفحہ471، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد
امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” ایک مہینے کے اعتکاف کی منت
مانی اور مرگیا، تو ہر روز کے بدلےبقدر صدقہ فطر کے مسکین کو دیا
جائے یعنی جبکہ وصیت کی ہواور اس پر واجب ہے کہ وصیت
کرجائے اور وصیت نہ کی، مگر وارثوں نے اپنی طرف سے فدیہ
دے دیا،جب بھی جائز ہے۔“(بھارِ شریعت ، جلد1،حصہ 5،
صفحہ1028،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
میت نے وصیت نہ کی
ہو، تو اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کے متعلق علامہ علاؤالدین
حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1088ھ/ 1677ء) لکھتےہیں:”(ان) لم يوص و(تبرع وليه به جاز) ۔۔۔ويكون
الثواب للولی “یعنی اگر میت نے وصیت نہ کی اور
اس کا ولی اس کے معاملے میں احسان کرتے ہوئے فدیہ ادا کرے، تو
جائز ہے اور ولی کو ثواب ملے گا۔(الدرالمختار ، جلد3، صفحہ467، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی
امیر اَہل ِ سُنَّتْ مولانا محمد الیاس عطارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَہْ لکھتے ہیں :”اگر ورثاء اپنے
مرحومین کے لیے یہ (یعنی فدیہ کا) عمل
کریں، تو یہ میت کی زبردست امداد ہوگی ،اس طرح مرنے
والا بھی ان شاء اللہ فرض کے بوجھ
سے آزاد ہوگا اور ورثاء بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔“(نماز کے احکام،صفحہ 347،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟