مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-2002
تاریخ اجراء: 01ربیع الاول1445 ھ/18ستمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
روزوں کا فدیہ ،صدقاتِ واجبہ
میں سے ہے اور صدقہ واجبہ اُنہی کو دے سکتے ہیں جن کو زکوۃ
دے سکتے ہیں ، جنہیں زکوۃ نہیں دے سکتے، انہیں کسی
قسم کا صدقہ واجبہ بھی نہیں دے سکتے۔ پوچھی گئی
صورت میں اگر بہو سیدہ یا
ہاشمیہ نہ ہو اور ساتھ میں شرعی فقیر بھی ہو یعنی
مالکِ نصاب نہ ہو تو ایسی صورت میں بہو کوساس کے روزوں کا فدیہ
دے سکتے ہیں ،جس طرح اسے زکوۃ دے سکتے ہیں کیونکہ جس کافدیہ
دیاجارہاہے ،بہونہ اس کی اصل ہے(یعنی اس کی ماں،دادی
،نانی وغیرہ ) اورنہ اس کی فرع (یعنی اولاد)۔
البتہ! اگر بہو سیدہ یا ہاشمیہ
ہو یا شرعی فقیر نہ ہو تو اب اسے فدیہ نہیں دے سکتے
،جس طرح اسے زکوۃ نہیں دے سکتے۔
سیدی اعلی حضرت
رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فدیہ کے
حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:’’مصرف
اس کا مثل مصرفِ صدقہ فطر و کفارہ یمین وسائر کفارات و صدقات واجبہ ہے
بلکہ کسی ہاشمی مثلاً شیخ علوی یا عباسی کو
بھی نہیں دے سکتے۔ غنی یا غنی مرد کے نابالغ
فقیر بچے کونہیں دے سکتے، کافر کونہیں دے سکتے، جو صاحبِ فدیہ
کی اولاد میں ہے جیسے بیٹا بیٹی ، پوتا پوتی،
نواسا نواسی، یا صاحبِ فدیہ جس کی اولاد میں جیسے
ماں باپ ، دادا دادی، نانانانی ، اُنہیں نہیں دے سکتے ،
اور اَقربا مثلاً بہن بھائی ، چچا ، ماموں خالہ ، پھوپھی، بھتیجا،
بھتیجی، بھانجا ، بھانجی، ان کو دے سکتے ہیں جبکہ اور
موانع نہ ہوں۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ528،رضا فاؤنڈیشن
،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟