کیا رمضان کی مبارک باد دینے سے جنت واجب ہو جاتی ہے؟ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر: Pin-5605 |
تاریخ اجراء:20رجب المرجب1439ھ07اپریل 2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آمدِ رمضان کے متعلق یہ روایت بیان کی جا رہی ہے کہ جس نے سب سے پہلے کسی کو رمضان کی مبارک باد دی، اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے؟ اور کیا اسے شیئر کر سکتے ہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
ماہِ رمضان المبارک بہت فضائل
کا حامل ہے۔ اس کی آمد کی خوشخبری دینا اور
فضائل بیان کرنا نہ صرف جائز، بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ مصنف
ابن ابی شیبہ اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے
ہیں:واللفظ للاول:’’ قال نبي اللہ
صلى اللہ عليه وسلم وهو يبشر اصحابه: قد جاءكم رمضان شهر مبارك، افترض عليكم صيامه،
تفتح فيه ابواب الجنة و تغلق فيه ابواب الجحيم وتغل فيه الشياطين، فيه ليلة القدر
خير من الف شهر، من حرم خيرها فقد حرم‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ( ماہِ رمضان کی
آمد پر ) خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تحقیق
تمہارے پاس مبارک مہینا رمضان آ گیا ہے۔ اس کے روزے تم
پر فرض کیے گئے ہیں۔ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول
دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور
شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ایک
ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جو اس میں
بھلائی سے محروم رہا، تحقیق وہ محروم ہو گیا۔ ‘‘ ( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصیام، جلد 2، صفحہ 419، مطبوعہ
ملتان)
اس حدیث کے تحت علامہ
ابن رجب حنبلی علیہ الرحمۃ ( متوفی 795ھ) فرماتے ہیں: ’’ قال بعض العلماء: هذا الحديث اصل في
تهنئة الناس بعضهم بعضا بشهر رمضان ‘‘ ترجمہ: بعض علماء فرماتےہیں: یہ حدیث لوگوں
کا ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک باد دینے پر دلیل ہے۔‘‘ ( لطائف المعارف، وظائف شھر رمضان، صفحہ 148، دارالکتب العلمیہ)
لیکن جہاں تک سوال میں
مذکور روایت کا تعلق ہے، تو ایسی کوئی روایت نظر سے
نہیں گزری، نہ علماء سے سنی، بلکہ ایسی باتیں
عموماً من گھڑت ہوا کرتی ہیں اور یاد رہے! من گھڑت بات حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قصداً منسوب کرنا حرام ہے۔ حدیث
مبارک میں اس پر سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من
کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار‘‘ ترجمہ : جس نے مجھ پر جان
بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب
العلم، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد
1، صفحہ 21، مطبوعہ کراچی)
نیز بغیر تحقیق
و تصدیق ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانا بھی
نہیں چاہیےکہ حدیث پاک میں ایسے شخص کو جھوٹا فرمایا
گیا ہے۔
چنانچہ مسلم شریف کی
حدیث میں ہے:’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع‘‘ ترجمہ
: انسان کے جھوٹا ہونے کو یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی
بات بیان کر دے ۔ ‘‘
(الصحیح لمسلم، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، جلد 1، صفحہ
9،مطبوعہ کراچی) لہذا ایسی روایات پر مشتمل میسجز اور پوسٹیں شیئر کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟