Kya Mard Par Ghar Ke Tamam Afrad Ka Fitra Dena Wajib Hai ?

کیا مرد پر  گھر کے تمام افراد کا فطرانہ دینا لازم ہے؟؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12297

تاریخ اجراء:  19ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/19جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرد پر  کیا گھر کے تمام افراد کا فطرانہ دینا لازم ہوتا ہے؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان مرد صاحبِ نصاب پر اپنااور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر اداکرنا واجب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ نابالغ بچے خود صاحبِ نصاب نہ ہوں۔ یونہی مجنون بالغ  اولاد اگر صاحبِ نصاب نہ ہو تو اس کا فطرہ بھی  باپ پر واجب ہوتا ہے۔

    البتہ اس کے علاوہ گھر کے دیگر افراد مثلاً بیوی ،بالغ اولاد، ماں ،باپ ، دادا،دادی، بہن بھائی، قریبی رشتہ داروں   کا فطرہ ادا کرنا  شرعاً مرد  پر  لازم وضروری نہیں۔  لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص گھر کے دیگر افراد کا صدقہ فطر ان کی اجازت سے اپنی طرف سے ادا کردیتا ہے تو اس میں کوئی حرج  والی بات نہیں، اس صورت میں بھی ان کا فطرہ ادا ہوجائے گا۔

   صاحبِ نصاب مرد پر کس کس کا فطرہ ادا کرنا واجب ہے؟ اس کی تفصیل فتاوٰی عالمگیری میں کچھ یوں مذکور ہے:وتجب عن نفسه وطفله الفقير كذا في الكافي والمعتوه والمجنون بمنزلة الصغير سواء كان الجنون أصليا أو عارضيا ، وهو الظاهر من المذهب كذا في المحيط۔ ثم إذا كان للولد الصغير أو المجنون مال فإن الأب أو وصيه أو جدهما أو وصيه يخرج صدقة فطر أنفسهما ورقيقهما من مالهما عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -۔۔۔۔ولا يؤدي عن زوجته ، ولا عن أولاده الكبار ، وإن كانوا في عياله ، ولو أدى عنهم أو عن زوجته بغير أمرهم أجزأهم استحسانا كذا في الهداية۔ وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان ۔ ۔۔۔۔ ولا يؤدي عن أجداده وجداته ونوافله كذا في التبيين . ولا يلزم الرجل الفطرة عن أبيه وأمه ، وإن كانا في عياله ؛ لأنه لا ولاية له عليهما كالأولاد الكبار كذا في الجوهرة النيرة۔ ولا يجب أن يؤدي عن أخواته الصغار ، ولا عن قرابته ، وإن كانوا في عياله كذا في فتاوى قاضي خان۔ ترجمہ : ”مرد صاحبِ نصاب پر اپنا اور اپنی نابالغ فقیر اولاد کا صدقہ فطر واجب ہوتا ہے جیسا کہ کافی میں مذکور ہے، معتوہ اور مجنون چھوٹے بچے ہی کے درجے میں ہیں برابر ہے کہ ان کا یہ جنون اصلی ہو یا عارضی ہو، یہی ظاہر مذہب ہے جیسا کہ محیط میں مذکور ہے۔ پھر جب چھوٹے بچے یا مجنون کا مال ہو تو شیخین علیہما الرحمہ کے نزدیک باپ یا اس کا وصی یونہی  دادا یا اس  کا وصی ان کا اور ان کے غلاموں کا صدقہ فطر ان کے مال سے نکالے گا۔۔۔۔ البتہ مرد پر  اپنی زوجہ اور بالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں، اگر چہ وہ اس کے عیال ہو۔ اگر مرد بالغ اولاد اور زوجہ  کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیر ہی صدقہ فطر ادا کردیتا ہے تو استحساناً ان کا صدقہ فطر ادا ہوجائے گا جیسا کہ ہدایہ میں مذکورہے۔ اسی پر فتوی ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خان میں مذکور ہے۔ ۔۔۔اپنے دادا، دادی اور پوتوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مرد پر واجب نہیں جیسا کہ تبیین میں مذکور ہے۔ مرد پر اپنے ماں باپ کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا لازم نہیں اگر چہ وہ اس کے عیال میں ہوں کیونکہ ان پر مرد کو ولایت حاصل نہیں ان کا حکم بالغ اولاد والا ہی ہے جیسا کہ جوہرہ میں مذکور ہے۔ یونہی مرد پر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور قرابت داروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں اگر چہ وہ اس کے عیال میں ہوں جیسا کہ فتاوی قاضی خان میں مذکور ہے۔“(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 193-192،مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”مردمالکِ نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے، جبکہ بچہ خود مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ اس کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے اور مجنون اولاد اگرچہ بالغ ہو جبکہ غنی نہ ہو تو اُس کا صدقہ اُس کے باپ پر واجب ہے اور غنی ہو تو خود اس کے مال سے ادا کیا جائے، جنون خواہ اصلی ہو یعنی اسی حالت میں بالغ ہوا یا بعد کو عارض ہوا دونوں کاایک حکم ہے۔۔۔۔۔۔ اپنی عورت اور اولاد عاقل بالغ کا فطرہ اُس کے ذمہ نہیں۔۔۔۔ ماں باپ، دادا دادی، نابالغ بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا فطرہ اس کے ذمہ نہیں۔“(بہار شریعت ، ج 01، ص 938-935، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم