Kya Mard Hazrat Gharon Mein Itikaf Kar Sakte Hain ?

کیا مرد حضرات گھروں میں اعتکاف کر سکتے ہیں ؟

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

مصدق: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی  نمبر: Aqs-1816

تاریخ  اجراء: 15رمضان المبارک1441ھ/09مئی2020ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا مرد حضرات گھروں میں اعتکاف کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   مردوں کے اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے ، مسجد کے علاوہ گھروں میں خواہ مسجدِ بیت ہو یا کوئی جائے نماز کہیں بھی مردوں کا اعتکاف نہیں ہوسکتا ، گھروں میں فقط عورتوں کے لیے مسجد ِ بیت (یعنی گھروں میں نماز کے لیے مخصوص جگہ) پر  اعتکاف ہوتا ہے ،مردوں کا نہیں ۔

   یا درہے کہ  رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کہ اگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی نہ کیا ، تو سب سے اس کا مطالبہ رہے گا ،اور اگر کسی ایک نے بھی کر لیا ، تو سب بریء الذمہ ہوجائیں گے ۔

   اللہ عز وجل قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَلَاتُبَاشِرُوۡہُنَّ وَاَنۡتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾ترجمۂ کنز الایمان : ” اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ۔ “

   اس آیت کے تحت صدر الافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں : ”مردوں کے اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے۔“(پارہ 2 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 187)

   سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے : ” ولا اعتكاف الا في مسجد جامع“ ترجمہ : ( مردوں کا ) اعتکاف نہیں ہوگا ، مگر جامع مسجد میں ۔( سنن ابی داؤد ، جلد 2 ، صفحہ 333 ، مطبوعہ بیروت )

   اس کے تحتجامعکی قید استحبابی ہونے سے متعلق مرأۃ المناجیح میں ہے : ”اگر اس سے جمعہ والی مسجد مراد ہو جہاں نماز جمعہ بھی ہوتی ہو ، تویہ حکم استحبابی ہےکہ جمعہ والی مسجد میں اعتکاف مستحب ہے ۔( اعتکاف )جائز تو ہر مسجد میں ہے۔ رب تعالیٰ فرماتاہے:﴿وَاَنۡتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ ﴾ “( مرأۃ المناجیح ، جلد 3 ، صفحہ 216 ، مطبوعہ ضیاء القرآن ، لاھور )

   شرح بخاری لابن بطال میں ہے : ”وأجمع العلماء أن الاعتكاف لا يكون إلا فى المساجد “ ترجمہ : علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ (مردوں کا ) اعتکاف صرف و صرف مسجد میں ہی ہوگا۔( شرح صحیح البخاری لابن بطال ، جلد 4 ، صفحہ 161 ، مطبوعہ ریاض )

   بدائع الصنائع میں ہے : ”اما الذی یرجع الی المعتکَف فیہ فالمسجد و انہ شرط فی نوعی الاعتکاف الواجب و التطوع “ترجمہ : بہر حال جس جگہ اعتکاف کیا جائے ، اس کی شرائط : تو اس کے لیے مسجد ہونا شرط ہے اور یہ نفلی اور واجبی دونوں طرح کے اعتکاف کے لیے شرط ہے ۔ (بدائع الصنائع ، کتاب الاعتکاف ، شرائط الصحۃ ، جلد 2 ، صفحہ 280 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   مردوں کا اعتکاف مسجدِ بیت میں نہیں ہوسکتا ۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ” مساجد البيوت فإنه لا يجوز الاعتكاف فيها إلا للنساء كذا في القنية “ترجمہ : مسجدِ بیت میں عورتوں کے علاوہ کسی کا اعتکاف جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ قنیہ میں ہے ۔( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الکراھیۃ ، الباب الخامس ، جلد  5 ، صفحہ  321 ، مطبوعہ بیروت )

   بہارِ شریعت میں ہے : ”مسجد میں اﷲ (عزوجل) کے لیے نیّت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے۔۔۔مسجد جامع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مؤذن مقرر ہوں، اگرچہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بھتیری(بہت سی) مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مؤذن۔ “( بھارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد  1 ، صفحہ  1020 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

    عورتوں کے اعتکاف سے متعلق بہارِ شریعت میں ہے : ” عورت کومسجد میں اعتکاف مکروہ ہے، بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے ، جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرلے۔“          ( بھارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد  1 ، صفحہ 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ موکدہ علی الکفایہ ہونے کے متعلق درر الحکام میں ہے : ” وهو واجب في المنذور وسنة مؤكدة في العشرة  الأخيرة من رمضان “ ترجمہ : منت مانی ہو ، تو اعتکاف واجب ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے ۔

   اس کے تحت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہونے سے متعلق حاشیہ شرنبلالی میں ہے : ” أي سنة كفاية للاجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان كذا في البرهان “ ترجمہ : یعنی سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ جب کسی شہر میں بعض لوگ رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کر لیں ، تو باقیوں پر کوئی ملامت نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ برہان میں ہے ۔( حاشیہ شرنبلالی علی درر الحکام ، جلد  1 ، صفحہ 212 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ، بیروت )

   مجمع الانہر میں اس کو سنت موکدہ علی الکفایہ قرار دے کر فرمایا : ” لو ترك أهل بلدة بأسرهم يلحقهم الإساء وإلا فلا “ ترجمہ : اگر تمام شہر والے چھوڑ دیں گے ، تو ہی ان کو اساءت ( یعنی سنتِ موکدہ چھوڑنے والی وعید ) لاحق ہوگی ، ورنہ نہیں ۔( مجمع الانھر ، جلد 1 ، صفحہ 255 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں : ”یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ۔( بھارِ شریعت ، حصہ  5 ، جلد 1 ، صفحہ 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم