مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12320
تاریخ اجراء: 28ذو الحجۃ
الحرام 1443 ھ/28جولائی 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ شوہر کی اجازت کے بغیر
رمضان کے قضا روزے رکھ رہی ہو، اب کسی دن شوہر کام سے چھٹی کرلے
اور وہ ہندہ کو ہم بستری کے لیے بلائے اور روزہ توڑنے کا کہے۔
تو کیا اس صورت میں ہندہ کو شوہر کے کہنے پر اس روزے کو
توڑنے کی اجازت ملے گی؟؟ رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عورت کو
قضا روزہ رکھنے میں شوہر کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، لہذا صورتِ
مسئولہ میں ہندہ کے لیے حکمِ شرع یہی ہے کہ وہ اپنے اس
روزے کو پورا کرےاور شوہر کو حکمِ
شرعی سے آگاہ کردے۔ نیز ہرگز ہرگز شوہر کے کہنے پر اس روزے کو
نہ توڑے ورنہ سخت گنہگار ہوگی، کیونکہ خالق کی نافرمانی
میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔
چنانچہ صحیح
بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”عن علی رضي الله عنه ان النبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم
قال لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ انما الطاعۃ فی
المعروف“یعنی حضرتِ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و
اٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کی نافرمانی
میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، بلکہ مخلوق کی
اطاعت تو فقط بھلائی والوں کے کاموں میں ہی جائز ہے۔(صحیح البخاری
،ج 02، ص1078-1077،مطبوعہ کراچی، ملخصاً )
صدر
الشریعہ بدر الطریقہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ
ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”جس کام کو شرع مطہر نے ناجائز قرار دیا ہے اس میں
مخلوق کی اطاعت نہیں کہ یہ حقِ شرع ہے اور مخلوق کی اطاعت
میں احکامِ شرع کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی
کہ معصیت میں کسی کی طاعت نہیں ہے۔
حدیث میں ہے لا طاعۃ للمخلوق فی
معصیۃ الخالق۔“ (فتاوٰی امجدیہ،
ج04، ص 198، مکتبہ رضویہ کراچی، ملخصاً)
مزید
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے
ہیں:”جو حکم شرعاً ناجائز ہے اس میں کسی کی
پیروی جائز نہیں، حکمِ شرع کو سب پر مقدم رکھنا ضروری
ہے۔“ (فتاوٰی
امجدیہ، ج04، ص 222، مکتبہ
رضویہ کراچی، ملخصاً)
قضا روزہ رکھنے
میں شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ رد
المحتار میں منقول ہے:”فی البحر عن القنیۃ:
للزوج ان یمنع زوجتہ عن کل ما کان الایجاب من جھتھا کالتطوع و النذر و
الیمین دون ما کان من جھتہ تعالیٰ کقضاء رمضان۔“ یعنی بحر میں قنیہ کے حوالے سے منقول ہے کہ شوہر
کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ہر اس روزے سے
منع کرسکتا ہے کہ جو خود اس کی جہت سے اس پر لازم ہوئے ہوں جیسے نفل،
منت اور قسم کے روزے، ہاں جو روزے اس پر اللہ عزوجل کی جانب سے لازم ہوئے
ہوں ان روزوں کو رکھنے سے شوہر بیوی کو منع نہیں کرسکتا
جیسا کہ رمضان کے قضاء روزے۔(رد المحتار مع الدر المختار،ج03،ص478،مطبوعہ
کوئٹہ)
بہارِ
شریعت میں ہے: ”رمضان اور قضائے رمضان کے
لیے شوہر کی اجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اس کی ممانعت پر بھی رکھے۔“ (بہار شریعت ، ج 01، ص 1008، مکتبۃ
المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟