Kya Baligh Hone Ke Baad Pichle Saalon Ka Fitra Dena Zaroori Hai

کیا بالغ ہونے کے بعد نابالغ پر گزشتہ سالوں کا فطرہ ادا کرنا لازم ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12323

تاریخ اجراء:        29ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/29جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ بچے  کا گزرے ہوئے سالوں کا فطرہ اس کے  سرپرست نے ادا نہ کیا ہو، تو کیا بالغ ہونے کے بعد ان سالوں کا فطرہ نکالنا اس نابالغ پر واجب ہوگا؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ بچہ اگر صاحبِ نصاب ہو اور اس کا سرپرست اس کا فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد ان گزشتہ سالوں کا فطرہ اب اسی بچے پر لازم ہوگا۔ اور اگر نابالغ خود صاحب نصاب نہیں تھا تو بالغ ہونے کے بعد اس پر ایسے صدقہ کی ادائیگی واجب نہیں ۔

   چنانچہ درِ مختار  میں ہے:لو لم يخرجها وليهما وجب الأداء بعد البلوغیعنی اگر نابالغ اور مجنون کے ولی نے ان کا فطرہ ادا نہ کیا تو بالغ ہونے کے بعد فطرے کی ادائیگی خود ان پر واجب ہوگی ۔

    (لو لم يخرجها وليهما) کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ  ارشاد فرماتے ہیں:أي من مالهما۔ ففي البدائع أن الصبي الغني إذا لم يخرج وليه عنه فعلى أصل أبي حنيفة وأبي يوسف أنه يلزمه الأداء؛ لأنه يقدر عليه بعد البلوغ۔ اهـ۔ قلت: فلو كانا فقيرين لم تجب عليهما بل على من يمونهما كما يأتي۔ والظاهر أنه لو لم يؤدها عنهما من ماله لا يلزمهما الأداء بعد البلوغ والإفاقة لعدم الوجوب عليهما ترجمہ: ”یعنی ان دونوں(نابالغ و مجنون) کے مال سے ولی نے فطرہ ادا نہ کیا ہوکے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں کہ۔ بدائع میں ہے کہ  بچہ جب غنی ہو اور اس کے ولی نے اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا نہ کیا ہو تو امامِ اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف علیہما الرحمہ کے مذہب کے مطابق بالغ ہونے کے بعد خود اس بچے پر فطرے کی ادائیگی لازم ہوگی کیونکہ بالغ ہونے کے بعد وہ اس بات پر قادر ہے۔ الخ، میں کہتا ہوں: پس اگر نابالغ اور مجنون دونوں فقیر ہوں تو اس صورت میں ان کا صدقہ فطر جس کی پرورش میں یہ ہیں اس پر واجب ہوگا جیسا کہ یہ بات آگے بیان ہوگی۔ یہاں سے یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اس سرپرست نے ان کا فطرہ اپنے مال سے ادا نہ کیا ہو، تو اب بالغ ہونے اور جنون سے افاقہ ہونے کے بعد خود ان پر صدقہ فطر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، کیونکہ ان پر تو صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہی نہ تھی۔“ (رد المحتار مع الدر المختار، ج 03، ص 365، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”نابالغ یا مجنون اگر مالکِ نصاب ہیں تو ان پر صدقہ فطر واجب ہے، اُن کا ولی اُن کے مال سے ادا کرے، اگر ولی نے ادا نہ کیا اور نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کر دیں اور اگر خود مالکِ نصاب نہ تھے اور ولی نے ادا نہ کیا تو بالغ ہونے یا ہوش میں آنے پر اُن کے ذمہ ادا کرنا نہیں۔“ (بہار شریعت ، ج 01، ص 936، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم