مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:58
تاریخ اجراء: 07رمضان
المبارک1442ھ/20اپریل2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین
و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ رمضان شریف
کے مہینے میں جمعۃ الوداع کو چار رکعتیں قضائے عمری
کی ادا کی جاتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے
گزشتہ تمام نمازیں ادا ہوجاتی ہیں ، کیا شرعاً یہ
درست ہے ؟اور اس بارے میں ایک روایت بھی بیان کی
جاتی ہے ، کیا وہ درست ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
جمعۃ
الوداع میں قضا عمری کے طور پر چند رکعات ادا کر کے یہ سمجھنا
کہ سابقہ تمام قضا شدہ نمازیں ادا ہوجاتی ہیں، باطل محض اور بد
ترین بدعت ہے ۔ اس پر جو روایت پیش کی جاتی
ہے ، موضوع یعنی من گھڑت ہے۔قضا نمازیں ادا کرنے کا یہ
طریقۂ کار حدیثِ مبارک
کے خلاف ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا
: جو شخص نماز بھول گیا ، تو جب یاد آئے ، ادا کر لے ۔ ادائیگی
کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔ یونہی یہ طریقہ
اجماع کے بھی خلاف ہے ۔
سیدی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے
( فارسی ) میں اسی طرح کا سوال ہوا ، تو آپ علیہ الرحمۃ
نے جواباً ارشاد فرمایا : ( ترجمہ : ) ” فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ
جو طریقہ ( قضائے عمری ) ایجاد کر لیا گیا ہے ، یہ
بد ترین بدعت ہے ۔ اس بارے میں جو روایت ہے، وہ موضوع (
گھڑی ہوئی ) ہے ۔ یہ عمل سخت ممنوع ہے ۔ ایسی
نیت و اعتقاد باطل و مردود ، اس جہالتِ قبیحہ اور واضح گمراہی
کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ “ ( فتاویٰ
رضویہ ، جلد 8 ، صفحہ 155 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟