مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2602
تاریخ اجراء:26رمضان المبارک1445ھ/06اپریل2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک
پوسٹ وائرل ہورہی ہے ، جس میں ایک حدیثِ
پاک کے حوالے سے بتایا
گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے ، تو فجر کی
نماز کے بعد اعتکاف گاہ میں
داخل ہوتے ۔ شرعی
رہنمائی فرما دیں
کہ اعتکاف میں کب بیٹھا جائے ؟اور اس حدیثِ
پاک کی شرح کیا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا سنت ہے کہ احادیث میں عشرہ کا ذکر ہے اور عشرہ
اُسی وقت مکمل ہوگا کہ
جب اکیسویں شب کو بھی اعتکاف میں شامل کیا جائے ، اگر اکیسویں شب کو اعتکاف
میں شامل نہ کریں ، تو عشرہ پورا نہیں ہوگا اور حدیثِ پاک پر عمل نہیں
ہوگا ۔ نیز اعتکاف کا ایک عظیم مقصد لیلۃ
القدر کو حاصل کرنا بھی ہے ، جس کے متعلق حکم ہے
کہ ”رمضان کے آخری عشرے
کی طاق راتوں میں تلاش کرو“
تو ممکن ہے کہ آخری عشرے
کی پہلی طاق رات (یعنی اکیسویں) کو لیلۃ
القدر ہو اور اکیسویں روزے
کی فجر کے بعد اعتکاف شروع کرنے کی صورت
میں لیلۃ القدر بھی حاصل
نہیں ہوگی ، تو یہ بات بھی اس چیز
پر دلالت کرتی ہے کہ
سنت اعتکاف میں اکیسویں
شب بھی داخل ہو ؛ اسی وجہ سے ائمہ اربعہ (امام اعظم
ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور
امام احمد بن حنبل ) رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کا اکیسویں
کی شب کو اعتکاف میں شامل کرنے پر اجماع ہے
کہ اگر بیسویں روزے
کے غروبِ آفتاب کے بعد خواہ
فجر یا فجر سے کچھ پہلے اعتکاف
کی نیت کی ، تو اس رات کا کچھ حصہ گزر چکا ہوگا
، جس وجہ سے عشرہ مکمل نہیں ہوگا اور حدیثِ پاک پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کا
سنت اعتکاف ادا نہیں ہوگا
۔
بخاری
شریف میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما سے
مروی ہے :” كان رسول الله صلى
الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان “
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم رمضان
شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔(صحیح
البخاری ، کتاب الاعتکاف ، جلد 3 ، صفحہ 47 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
مغرب سے پہلے مسجد میں موجود ہونے سے
متعلق مصنف ابن ابی شیبہ
میں ہے:”عن إبراهيم، قال:
إذا أراد أن يعتكف، فلتغرب له الشمس من الليلة التي يريد أن يعتكف فيها وهو في
المسجد “ترجمہ:سیدنا
ابراہیم نخعی ( عظیم تابعی امام ) سے منقول ہے ؛ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو ، تو جس
رات اعتکاف کرنا ہے ، اس کے غروبِ شمس کے وقت اس کو
مسجد میں ہونا چاہیے ۔(مصنف ابن ابی شيبہ، جلد 2، صفحہ 335، مطبوعہ ریاض )
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ بخاری شریف کی مذکورہ بالا حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے فیض القدیر میں لکھتے
ہیں:” أي انقطع فيه وتخلى بنفسه بعد صلاته الصبح لاأن ذلك وقت ابتداء اعتكافه بل كان يعتكف من الغروب ليلة
الحادي والعشرين وإلا لما كان معتكفا للعشر بتمامه الذي ورد في عدة أخبار أنه
كان يعتكف العشر بتمامه وهذا هو المعتبر عند الجمهور لمن يريد اعتكاف عشر أو شهر
وبه قال الأئمة الأربعة “ ترجمہ:
یعنی نبی پاک
صلی
اللہ علیہ و سلم فجر کی نماز کے بعد
لوگوں سے الگ ہوکر اپنی اعتکاف گاہ میں تنہائی اختیار فرما لیتے تھے ، یہ مطلب
نہیں ہے کہ یہ اعتکاف شروع ہونے کا وقت تھا ، بلکہ اعتکاف تو اکیسویں شب
کی مغرب سے شروع فرما لیتے تھے ، ورنہ جو متعدد احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم ایک مکمل عشرہ اعتکاف فرمایا
کرتے تھے ، وہ”عشرہ “اعتکاف کی
حالت میں مکمل نہیں ہوگا
۔ جمہور کے نزدیک
یہی معتبر ہے اس شخص کے لیے جو (رمضان شریف کے آخری ) عشرے کا اعتکاف کرے یا پورے مہینے کا اعتکاف کرے اور یہی ائمہ اربعہ کا قول ہے ۔ ( فیض
القدیر ، جلد 5 ، صفحہ
122، مطبوعہ بیروت )
لیلۃ
القدر سے متعلق ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا روایت
کرتی ہیں: ”أن رسول الله صلى
الله عليه وسلم، قال: تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان“
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم نے
ارشاد فرمایا:لیلۃ القدر کو رمضان شریف کے آخری
عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔(صحیح
البخاری ، کتاب فضل لیلۃ القدر ، باب تحری
لیلۃ القدر ، ج 3 ، ص 46 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )
شیخ عبد الحق محدث دہلوی لمعات التنقیح میں اور علامہ نور الدین سندی رحمۃ اللہ علیہما نسائی شریف کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:واللفظ للثانی
”و مذھب
الجمھور انہ یشرع من لیلۃ الحادی و العشرین وقد أخذ بظاهر
الحديث قوم إلا أنهم حملوه على أنه يشرع من صبح الحادي والعشرين فرد عليهم الجمهور
بان
المعلوم انہ کان صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم یعتکف العشر الاواخر و یحث
اصحابہ علیہ و عدد العشر عدد اللیالی
فیدخل فیھا اللیلۃ الاُولیٰ
و الا لایتم ھذا العدد
اصلاً و ایضا من اعظم مایطلب بالاعتکاف ادراک لیلۃ القدر و ھی
قد تکون لیلۃ الحادی و العشرین کما جاء فی حدیث ابی سعید فینبغی
لہ ان یکون معتکفاً فیھا لا ان یعتکف بعدھا “ ترجمہ: جمہور کا مؤقف یہ ہے کہ اعتکاف اکیسویں شب سےشروع کیا جائے گا اور بعض لوگوں
نے اس حدیثِ پاک کے ظاہر کو لیا ہے ، مگر انہوں نے اس حدیثِ پاک کو اس پر محمول
کیا ہے کہ اکیسویں رمضان کی
صبح کو اعتکاف شروع کیا جائے ، تو جمہور نے ان کا یوں رد کیا ہے کہ یہ بات یقینی طور پرمعلوم
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخری عشرے
کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور اِسی کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب
دیا کرتے تھے ۔
اور عشر کی تعداد سے مراد راتوں کی تعداد
ہے ، تو اس میں عشرے کی پہلی رات بھی شامل ہے ، ورنہ یہ عدد تو بالکل بھی پورا نہیں ہوگا، اور ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ اعتکاف کے ذریعے جو چیز حاصل کی جاتی
ہے ، ان میں سے ایک عظیم القدر چیز
لیلۃ القدر کو حاصل کرنا ہے اور وہ کبھی اکیسویں شب
کو ہوتی ہے ، جیسا
کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثِ پاک میں ہے ، اس لیے مناسب بھی
یہی ہے کہ اس رات میں اعتکاف کیا جائے ، نہ کہ اس کے بعد اعتکاف
کیا جائے ۔(حاشيۃ
السندی علی سنن النسائی،
کتاب المساجد ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ حلب)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد
علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت
میں فرماتے ہیں:” سنت مؤکدہ، کہ رمضان کے پورے عشرہ اخیرہ یعنی
آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے
یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیّت اعتکاف مسجد میں
ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں
تاریخ کو بعد نماز مغرب نیّت اعتکاف کی تو سنت مؤکدہ ادا
نہ ہوئی ۔“(بھار
شریعت، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 1021، مکتبۃ المدینہ ،
کراچی )
مذکورہ بالا حدیثِ پاک اور محدثین کے کلام سے واضح ہوگیا کہ اعتکاف میں بیٹھنے کا صحیح وقت بیسویں روزے کا سورج غروب ہونے سے پہلے تک کا ہے ، اکیسویں
کی فجر کو بیٹھنے سے سنت اعتکاف نہیں ہوگا ،
باقی سوال میں بیان کردہ حدیثِ
پاک اور اس کی شرح درج ذیل
ہے:
مسلم شریف
میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی
ہے:” كَانَ رَسُولُ اللہِ
صَلَّى اللہِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الفَجْرَ،
ثُمَّ دَخَلَ فِي مُعْتَكَفِهٖ“ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف
کا ارادہ فرماتے ، تو فجرکی
نماز ادا فرماتے ، پھر اپنی اعتکاف
والی جگہ میں
داخل ہوتے ۔( الصحیح
لمسلم ، باب متیٰ یدخل
من اراد ان یعتکف فی معتکفہٖ،
جلد 2 ، صفحہ 831 ، مطبوعہ بیروت )
حدیثِ پاک
کی شرح:
یہ حدیثِ پاک مطلق ہے
یعنی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فجر کی
نماز پڑھ کر اپنی اعتکاف
گاہ میں جانے کا ذکر
ہے ، لیکن اس چیز کا بیان نہیں
ہے کہ بیسویں روزے
کی فجر تھی یا اکیسویں
روزے کی ؟ محدثینِ
کرام نے اس میں دونوں دنوں (بیسویں اور اکیسویں روزے )کی
فجر مراد لے کر درج ذیل دو توجیہات
بیان فرمائی ہیں:
(1) اس سے اکیسویں روزے کی
فجر مراد ہو ، تو پھر حدیثِ پاک
کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم اکیسویں کی شب شروع ہونے سے پہلے ہی مسجد
میں داخل ہوکر اعتکاف
شروع فرما لیتے تھے
اور رات مسجد میں گزارتے ، پھر فجر کی نماز
ادا کرنے کے بعد خلوت کے لیے مسجد میں ہی موجود اپنے اعتکاف والے خیمہ
میں تشریف لے آتے
، کیونکہ حدیثِ پاک میں ہے کہ ” نمازِ فجر ادا فرماتے ، پھر اپنی اعتکاف گاہ میں داخل ہوتے “
یہ نہیں ہے کہ پھر ”اعتکاف شروع کرتے ۔“ اس معنیٰ
کی تائید بخاری
شریف کی ایک اور روایت سے
بھی ہوتی ہے ، جس میں ” اِعْتَکَفَ“ ماضی
کا لفظ استعمال فرمایا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ جس جگہ اعتکاف کیا ہواتھا ، اُس جگہ تشریف لے آئے اور یہی معنیٰ
شارحین نے بیان فرمایا
ہے ۔
چنانچہ بخاری
شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:” كان رسول الله صلى
الله عليه وسلم، يعتكف في كل رمضان، وإذا صلى الغداة دخل مكانه الذي اعْتَكَفَ
فِيْهِ “ ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ
علیہ و سلم ہر رمضان میں اعتکاف فرماتے اور
جب صبح کی نماز ادا فرماتے ، تو اپنی اس جگہ تشریف لے آتے ، جس جگہ اعتکاف
کیا ہوتا ۔(صحیح
البخاری ، کتاب الاعتکاف
، باب الاعتکاف فی شوال ، جلد 3 ، صفحہ 51 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
امام علاؤ الدین
ابن عطار رحمۃ اللہ علیہ ( المتوفیٰ
724ھ ) اس حدیثِ پاک
کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”إنَّ اعتكافه - صلى
الله عليه وسلم - يحتمل أن يكون قبل ذلك، بل هو الظَّاهر. ومجيئه - صلى الله
عليه وسلم - إلى مكانه بعد صلاة الغداة؛ للانفراد من النَّاس بعد الاجتماع بهم في
الصَّلاة، لا أنَّه ابتداء دخول المعتكف، ويكون المراد بمكانه الَّذي اعتكف فيه،
الموضع الَّذي خصَّه بالاعتكاف من المسجد وأعدَّه له، كيف ولفظه يشعر بذلك، وهو
قولها: اِعْتَكَفَ فِيْهِ، بصيغة الماضي، والحديث الآخر: فضربَ أزواجُه
الأخبيةَ، وهذا ظاهر فيما قلناه “ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے (جس اعتکاف کا حدیثِ پاک میں ذکر ہے ، اس )اعتکاف
میں اس بات کا احتمال ہے کہ فجر سے پہلے ہی
اعتکاف شروع ہوچکا ہو ، بلکہ
یہی ظاہر ہے اور آپ
علیہ الصلوٰۃ و السلام کا نمازِ فجر
کے بعد تشریف لانا ، باجماعت
نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں سے تنہائی
اختیار کرنے کے لیے تھا
، نہ کہ وہ اعتکاف میں داخل ہونے
کی ابتداء تھی ۔ اور جس جگہ اعتکاف کیا تھا ، اس سے مراد وہ جگہ ہے کہ
مسجد میں جس کو اعتکاف کے لیے خاص اور تیار کیا تھا ،
یہ مراد کیوں نہ ہو ، حالانکہ
حدیث کا لفظ اسی چیز
کی نشاندہی کر رہا
ہے اور وہ ام المؤمنین رضی
اللہ عنہا کا ماضی کے صیغے کے ساتھ بیان کردہ یہ لفظ ” اِعْتَكَفَ فِيْهِ “ہے ۔(العدة في شرح
العمدة في أحاديث الأحكام ، جلد 2 ، صفحہ 922 ، مطبوعہ بیروت )
امام نووی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:” وقال مالك وأبو حنيفة والشافعي وأحمد يدخل فيه
قبل غروب الشمس إذا أراد اعتكاف شهر أو اعتكاف عشر وأولوا الحديث على أنه دخل المعتكف
وانقطع فيه وتخلى بنفسه بعد صلاته الصبح لا أن ذلك وقت ابتداء الاعتكاف بل كان من
قبل المغرب معتكفا لابثا في جملة المسجد فلما صلى الصبح انفرد “ ترجمہ:امام
مالک، امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی ،
امام احمد حنبل رَحِمَھُمُ اللہُ فرماتے ہیں:جس شخص نے پورے مہینے کا اعتکاف کرنا ہو
یا ( رمضان شریف کے آخری ) عشرے کا اعتکاف کرنا ہو ، تو وہ
غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد
میں داخل ہو اور انہوں نے اس حدیثِ
پاک کی شرح یہ بیان فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اعتکاف
گاہ میں نمازِ فجر کے بعد داخل ہوتے ، لوگوں سے خلوت اور تنہائی اختیار فرما لیتے ، یہ مراد نہیں کہ یہ اعتکاف شروع کرنے کا وقت تھا ،
بلکہ مغرب سے پہلے اعتکاف
کی حالت میں مسجد میں ٹھہرنے کے ساتھ
اعتکاف شروع فرما لیتے
، پھر نمازِ فجر ادا فرما کر تنہائی اختیار فرما لیتے
۔ (شرح
النووی علی مسلم ، جلد 8 ، صفحہ 68 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی
، بیروت )
یہ
توجیہ شرح الطیبی علی مشکاۃ المصابیح ، ج 5 ،
ص 1631، طبع ریاض۔فیض القدیر للمناوی ، ج 5 ، ص 96
، طبع مصر ۔ شرح ابن ماجہ للسیوطی ، ص 127 ، طبع کراچی
۔لمعات التنقیح للشیخ عبد الحق محدث دہلوی ، ج 4 ، ص 523
، طبع دمشق اور طرح التثریب فی شرح التقریب للامام ابو الفضل
زین الدین عبد الرحیم العراقی، ج 4 ، ص 168 ، طبع دار
الفکر ، میں بھی بیان
ہوئی ہے ۔
علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اعتکاف
شروع کرنے کے بعد رات گزارنے کا ذکر کرتے ہوئے
ارشاد فرماتے ہیں:
” أي إذا نوى من
أول الليل أن يعتكف وبات في المسجد (صلى الفجر ثم دخل في معتكفه) “ ترجمہ:
یعنی جب رات سے پہلے اعتکاف
کی نیت فرمالیتے
اور رات مسجد میں ہی گزارتے ، تو (فجر
کی نماز ادا فرماتے ، پھر اپنی اعتکاف گاہ میں تشریف لے آتے )۔ ( مرقاۃ
المفاتیح ، جلد 4 ، صفحہ 1449 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )
(2) اور اگر بیسویں روزے کی
فجر مراد ہو ، تو پھر حدیثِ پاک
کی توجیہ یہ ہوگی کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم بیسویں روزے کو فجر کی نماز پڑھنے
کے بعد اعتکاف کی تیاری
فرماتے ، تمام معاملات ملاحظہ فرماتے اور جب اعتکاف کا وقت یعنی بیسویں
روزے کو غروبِ آفتاب ہوتا ، تو اس سے پہلے اعتکاف گاہ میں تشریف لے آتے ۔
اسی وجہ سے روایات
میں یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ فجر
کی نماز پڑھنے کے بعد اعتکاف
گاہ کی طرف تشریف
لائے تو بعض امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے لگائے
ہوئے خیموں کو دیکھ کر اپنے اعتکاف کا ارادہ ترک فرما دیا ، جس کے
بارے میں شارحین نے فرمایا
ہے کہ اگر اعتکاف شروع کر لیا
ہوتا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے باطل نہ فرماتے ، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اس کے بعد اعتکاف نہ کرنا اس بات کی دلیل
ہے کہ اعتکاف شروع نہیں کیا تھا ، صرف نیت اور تیاری فرمائی تھی
اور پھر اعتکاف کیانہیں
تھا ۔
چنانچہ ابو داؤد
شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی
ہے:” كان رسول اللہ -صلى اللہ عليه وسلم- إذا أراد أن يعتكفَ
صلّى الفجر ثم دخل مُعْتكفَهُ، قالت: وإنه أراد مَرَّةً أن يعتكف في العشر الأواخر
من رمضان، فأمرَ ببنائِه فضُربَ، فلما رأيتُ ذلك أمرتُ ببنائي فضُرب، قالت: وأمر
غيري من أزواج النبي -صلى اللہ عليه وسلم- ببنائه فضرب، فلما صلّى الفجرَ نظر إلى
الأبنية، فقال: ما هذه؟ آلْبرَّ تُرِدن؟ قالت: فأمر
ببنائه فَقُوِّض، وأمر أزواجُه بأبنيتهن فقوضت، ثم أخَّر الاعتكاف “ ترجمہ:نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے ، تو فجر کی نماز ادا فرماتے ، پھر اپنی اعتکاف گاہ میں تشریف لے جاتے ۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ
یوں ہی رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا ، تو خیمہ بنانے کا حکم ارشاد فرمایا ، تو خیمہ بنا دیا گیا ، جب میں نے خیمہ دیکھا ، تو
میں نے بھی اپنے لیے خیمہ کا کہہ دیا اور ( میرے لیے بھی ) خیمہ بنا دیا گیا اور میرے علاوہ بھی امہات المؤمنین نے خیمے کا کہا ، تو (ان کے لیے بھی خیمے
)بنا دیے گئے ، تو جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز ادا
فرمائی ، خیموں کی طرف دیکھا ، تو فرمایا:
یہ کیا ہیں؟ کیا یہ نیکی
کا ارادہ رکھتی
ہیں؟ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بنے ہوئے خیمہ (کو اتارنے)کا حکم ارشاد فرمایا، تو وہ
اتار لیا گیا اور امہات
المؤمنین رضی اللہ عنہن
نے بھی اپنے خیموں
سے متعلق حکم دیا ، تو وہ بھی اتار دیے گئے ، پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا اعتکاف مؤخر فرما دیا ۔(سنن ابی
داؤد ، جلد 2، صفحہ 331 ، مطبوعہ بیروت )
فجر کے بعد اعتکاف کی تیاری
فرمانے سے متعلق شرح صحيح بخاری
لابن بطال میں ہے: ” هذا الحديث الذى
جاء بدخول المعتكف إلى اعتكافه إذا صلى الصبح يوهم أنه كان يدخل ذلك الحين
الاعتكاف، وليس ذلك على ما يوهم ظاهره؛ لأنه عليه السلام إنما كان يدخل
الخباء الذى يضرب له لينظر كيف ترتيب مكان نومه ومصلاه وحوائجه، ثم يخرج فى حوائجه، فإذا صلى المغرب دخل معتكفه، ولا يمكن أن يدخل
بنية الاعتكاف ثم ينصرف عنه؛ لأنه لا يحل قطع الاعتكاف البتة بعد أن يدخل
فيه “
ترجمہ:اس حدیثِ پاک میں معتکف کے اپنی اعتکاف گاہ میں فجر
کی نمازِ فجر پڑھنے کے بعد داخل ہونے کا ذکر ہے ، اس سے شبہ پیدا ہوتا
ہے کہ یہ اعتکاف شروع کرنے کا وقت ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ،
جیسا کہ اس کے ظاہر سے ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے جو خیمہ مبارک تیار
کیا جاتا تھا ، اس میں تشریف لاتے تھے ، تاکہ اپنے آرام فرمانے
، نماز وغیرہ کے معاملات کو ملاحظہ فرما سکیں ، پھر اپنی
ضروریات کے لیے باہر تشریف لےآتے اور جب مغرب کی نماز ادا
فرماتے ، تو پھر اپنی اعتکاف گاہ میں تشریف لے جاتے اور
یہ ممکن نہیں ہے کہ اعتکاف کی نیت سے داخل ہوں اور پھر باہر
آجائیں ، کیونکہ اعتکاف گاہ میں داخل ہونے کے بعد اعتکاف قائم ہوجائے ، تو اسے توڑنا ، جائز
نہیں ہے ۔(شرح
صحیح البخاری لابن بطال ، ج4 ، ص 177 ، مطبوعہ بیروت )
فجر
کے بعد اعتکاف شروع نہ کرنے والے معنیٰ پر امام بخاری رَحِمَہُ اللہُ
کا ترجمۃ الباب بھی دلالت
کرتا ہے ، چنانچہ جس باب میں یہ حدیثِ پاک ذکرکی ہے ، اس
کا عنوان امام بخاری رَحِمَہُ اللہُ نے
یوں قائم فرمایا:”(بابُ منْ أرَادَ
أنْ يَعْتَكِفَ ثُمَّ بَدَا لَهُ أنْ يَخْرُجَ) “
اس کے تحت علامہ بدر
الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری
میں لکھتے ہیں: ” أَي: هذَا بَاب
فِي بَيَان شَأْن من أَرَادَ الِاعْتِكَاف، ثمَّ بدا لَهُ أَي: ظهر لَهُ أَن يخرج،
وَمرَاده أَن يتْرك وَلَا يُبَاشر۔۔۔ وَفِيه: إِشَارَة
إِلَى الْجَزْم بِأَنَّهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لم يدْخل فِي الِاعْتِكَاف ثمَّ
خرج مِنْهُ، بل تَركه قبل الدُّخُول فِيهِ وَهُوَ ظَاهر “ ترجمہ:
یعنی یہ باب اس چیز کے
بیان میں ہے کہ جب کوئی شخص اعتکاف
کا ارادہ کرے ، پھر اس کے
لیے ظاہر ہو کہ اس نے باہر
نکلنا ہے ، مراد یہ ہے کہ وہ اعتکاف
چھوڑدے اور نہ کرے
۔۔۔ا اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ
ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں داخل
نہیں ہوئے تھے کہ پھر اعتکاف سے نکلے ہوں ، بلکہ اعتکاف میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے چھوڑ دیا تھا ، اور
یہی ظاہر ہے ۔(عمدۃ
القاری شرح صحیح
البخاری ، جلد 11 ، صفحہ
157 ، 158 ، مطبوعہ بیروت
)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ” وَأَجَابَ عَنْ
هذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّهُ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْخُلِ
الْمُعْتَكَفَ وَلَا شَرَعَ فِي الِاعْتِكَافِ وَإِنَّمَا هَمَّ بِهِ ثُمَّ عَرَضَ
لَهُ الْمَانِعُ الْمَذْكُورُ فَتَرَكَه “ ترجمہ: اس حدیثِ پاک کا جواب یہ
دیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اعتکاف گاہ میں داخل
نہیں ہوئے تھے اور نہ
ہی اعتکاف شروع فرمایا
تھا ، بلکہ صرف اعتکاف کا ارادہ فرمایا تھا، پھر مذکورہ بالا عارضہ لاحق ہوا ، تو اعتکاف ترک فرما دیا ۔(فتح الباری
، جلد 4 ، صفحہ 277 ، مطبوعہ
دار المعرفۃ ، بیروت
)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مرأۃ المناجیح میں فرماتے ہیں:” تمام ائمہ کے ہاں اعتکاف سنت و فرض بعدِ
عصر شروع کیا جائے،وہ فرماتے ہیں کہ حضور
انور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت سے اعتکاف گاہ میں داخلہ تیاری اعتکاف کے لیے
ہوتا تھا،اصل
اعتکاف بعد عصر شروع فرماتے تھے
؛اسی لیے آپ فرمارہی
ہیں کہ اپنے اعتکاف گاہ
میں داخل ہو جاتے ، یہ نہ فرمایا کہ اعتکاف شروع کردیتے تھے،اعتکاف شروع کرنا
اور ہے اور اعتکاف گاہ میں
داخلہ کچھ اور۔ اعتکاف گاہ سے مراد چٹائی کا وہ حجرہ ہے جو حضور
انورصلی اللہ علیہ و سلم کے اعتکاف
کے لیے بنایا جاتا
تھا کہ چٹائی گول شکل میں کھڑی کردی جاتی تھی۔“(مرأةالمناجیح
، جلد 3 ، صفحہ 215 ، مطبوعہ
ضیاء القرآن ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟