مجیب:مفتی ابو محمد
علی اصغر عطاری
فتوی
نمبر:Nor-12106
تاریخ اجراء:14رمضان المبارک1443 ھ/16اپریل
2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید
کو یہ معلوم نہیں تھا کہ
احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا، لہذا اس نے روزے میں احتلام ہونے
کے بعد کھاپی لیا۔ اب اسے اس مسئلہ کا علم ہوا کہ احتلام سے تو
روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اب دریافت طلب امر یہ
ہے کہ اس صورت میں زید پر روزے کا کفارہ بھی لازم ہوگا یا
فقط اس روزے کی قضا ہی لازم ہوگی؟؟ رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زید پر اس
روزے کی فقط قضا ہی لازم ہوگی۔
چنانچہ فتاوٰی
عالمگیری میں ہے : ”و اذا احتلم فظن ان ذلک فطرہ فاکل بعد ذلک متعمداً لا کفارۃ
علیہ ھکذافي المحیط“ یعنی روزے دار کو احتلام ہوا اس نے یہ
گمان کیا کہ اس کا وہ روزہ ٹوٹ گیا ہے پھر اس کے بعد اس نے قصداً کھایا
تو اس صورت میں اس پر کفارہ لازم نہیں، اسی طرح محیط میں
مذکور ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب
الصوم، ج 01، ص 206، مطبوعہ پشاور)
بہارِ شریعت میں ہے:”بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کیا
تھا یا نظر کرنے سے انزال ہوا تھا یا احتلام ہوا یا قے
ہوئی اور ان سب صورتوں میں یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا
رہا اب قصداً کھا لیا تو صرف قضا فرض ہے۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 989، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
یہاں تک پوچھے گئے سوال کا جواب تھا البتہ یہ
ضرور یاد رہے کہ دار الاسلام میں
شرعی مسائل سے لاعلم ہونا کوئی شرعی عذر نہیں، لہذا صورتِ
مسئولہ میں زید نے احتلام ہونے کے بعد مسئلے سے لاعلمی کی
بنا پر جو قصداً کھاپی کر روزہ توڑا ہے، اس گناہ سے توبہ کرنا زید پر
شرعاً لازم ہے۔
نیز یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر حسبِ حال علمِ دین
حاصل کرنا فرض ہےجس میں کوتاہی کرنا جائز نہیں، لہذا جس پر روزے فرض ہیں اس پر
روزے کے ضروری مسائل سیکھنا بھی فرض ہیں ورنہ بلا عذرِ
شرعی ضروری مسائل سیکھنے میں کوتاہی کرنے کے سبب وہ
گنہگار ہوگا۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے
ہیں:”سب میں پہلا فرض آدمی پر (بنیادی
عقائد) کا تعلم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں،
پھر علم مسائل نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط ومفسدات جن کے جاننے سے
نماز صحیح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم، مالک
نصاب نامی ہو تو مسائل زکوٰۃ، صاحب استطاعت ہو تو مسائل حج،
نکاح کیاچاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے، تاجر ہو تو مسائل بیع
وشراء، مزارع پرمسائل زراعت، موجرومستاجر پر مسائل اجارہ، وعلٰی ہذا
القیاس ہر اس شخص پر اس کی حالت موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرض
عین ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 624، رضا فاؤنڈیشن، لاہور،
ملخصاً)
نوٹ:روزے سے متعلق ضروری احکام جاننے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی
مطبوعہ کتاب”فیضانِ رمضان، صفحہ 71 تا 158“سے”احکامِ روزہ“کا
مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب
سائٹ www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟