مجیب: مولانا جمیل احمد غوری
عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1133
تاریخ اجراء: 10رمضان المبارک1445 ھ/01اپریل2023
ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پچھلے رمضان کے قضا
روزے ذمہ پر باقی ہوں تو اس سے
اعتکاف پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، ایسی عورت(جس پر پچھلے
قضا روزے باقی ہوں وہ) بھی اعتکاف کرسکتی ہےاس میں شرعاً
کوئی حرج نہیں، البتہ رمضان کے بعد پچھلے روزے جلد از جلد قضا کرلئے جائیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟