مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی
عفی عنہ
فتوی نمبر:WAT-1669
تاریخ اجراء: 03ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/23مئی2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی
گئی صورت میں اس عورت پر گزشتہ جتنے بھی سالوں کاصدقہ فطر
واجب ہوتا رہا، اور اس نے ادا نہیں کیا، تو ان تمام سالوں کا فطرانہ
ادا کرنااس پر لازم ہو گا، اب اداکرنے سے اداہی ہوگاقضانہیں
ہوگاکیونکہ عمربھراس کاوقت ہے اگرچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ جس سال صدقہ فطرلازم ہوا،اس سال
عیدکی نمازسے پہلے اداکرے ۔
اوراس کی ادائیگی کاطریقہ
یہ ہے کہ :
جس سال
کا صدقہ فطر ادا کرنا ہے، اس سال کے
اعتبار سے جو صدقہ فطر بن رہا ہو گا، وہ
ادا کرنا لازم ہو گا،البتہ اگر موجودہ سال میں ریٹ پچھلے سالوں کے اعتبارسے
زیادہ ہواوروہ موجودہ سال کے اعتبار سے ہی گزشتہ سالوں کا صدقہ فطر
ادا کر دے، تب بھی درست ہے ،
کیونکہ اس صورت میں واجب کی ادائیگی میں
کمی واقع نہیں ہورہی۔
در مختار میں ہے”صدقة الفطر
(تجب۔۔۔موسعا في العمر) عند أصحابنا وهو الصحيح بحر عن البدائع
معللا بأن الأمر بأدائها مطلق“ترجمہ:ہمارے اصحاب کے نزدیک صدقہ فطر
واجب ہے اور عمر بھر اس کا وقت ہے،اور یہی صحیح ہے،بحر
میں بدائع کے حوالے سے اس کی یہ علت بیان کی کہ اس
کی ادائیگی کا حکم مطلق ہے۔
اس کے تحت رد المحتار
میں ہے” (قوله:
مطلق) أي عن الوقت فتجب في مطلق الوقت وإنما يتعين بتعيينه فعلا أو آخر العمر، ففي
أي وقت أدى كان مؤديا لا قاضيا“ترجمہ:(مصنف کا قول:مطلق)یعنی وقت
سے مطلق، پس مطلق وقت میں اس کا وجوب ہے اور یہ وجوب
ادائیگی کے وقت یا آخری عمر میں متعین ہوگا
تو پوری عمر میں جب ادا کرے گا ، ادا کرنے والاہی ہو گا، قضاکرنے والا
نہیں ہوگا۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر،ج 2،ص
359،دار الفکر،بیروت)
بہار شریعت میں
ہے” صدقہ فطر واجب ہے، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ
کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا
قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے، اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا
کر دینا ہے۔"(بہار شریعت،ج 1،حصہ 5،ص 935،مکتبۃ
المدینہ)
در مختار میں ہے” (وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة
۔۔۔) وتعتبر القيمة يوم الوجوب ۔ “ ترجمہ: اور
زکاۃ ، عشر، خراج اورفطرانے میں قیمت دیناجائزہے
اورقیمت واجب ہونے کے دن کی معتبرہے ۔(در مختار مع رد
المحتار،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم،ج 2،ص 286،285،دار
الفکر،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟