Din Mein Roze Ki Niyat Karne Se Mutalliq Aham Masla

دن میں روزے کی نیت کرنے سے متعلق اہم مسئلہ

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13316       

تاریخ اجراء: 16رمضان المبارک1445 ھ/27مارچ 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ رمضان کے روزے میں زید کی سحری میں آنکھ نہیں کھلی، سحری کا وقت 4:10 پر ختم ہورہا تھا جبکہ زید کی آنکھ صبح 7:00 بجے کھلی۔  زید نے اٹھتے ہی یوں نیت کی کہ میں ابھی سے روزے سے ہوں، جبکہ سحری کا وقت تو کافی پہلے ختم ہوچکا تھا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس صورت میں زید کا  روزہ درست ادا ہوگیا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں! پوچھی گئی صورت میں زید کا  روزہ ادا نہیں  ہوا، بعد میں اس روزے کی قضا  کرنا زید کے ذمے پر لازم ہے۔

تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ رمضان کے روزے کی نیت غروبِ آفتاب سے لے کر ضحوہ کبرٰی تک کی جاسکتی ہے، لیکن دن میں نیت کرتے ہوئے ضروری ہے کہ یہ نیت کرے کہ میں صبح صادق سے روزے سے ہوں، ورنہ اگر یوں نیت کی کہ میں ابھی سے روزے سےہوں تو اس صورت میں روزہ ادا نہیں ہوگا۔ واضح ہوا کہ  صورتِ مسئولہ میں زید کا وہ روزہ ادا نہیں ہوا، جس کی قضا کرنا زید کے ذمے پر لازم ہے۔

   چنانچہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ  میں ہے:”وإذا نوى من النهار ينوي أنه صائم من أوله حتى لو نوى أنه صائم من حين نوى لا يصير صائما كذا في الجوهرة النيرة والسراج الوهاج۔“یعنی جب کوئی شخص دن میں روزے کی نیت کرے تو یوں نیت کرے کہ وہ اول وقت سے روزہ دار ہے، یہاں تک کہ اگر اُس نے یہ نیت کی کہ نیت کرنے کے  وقت سے روزہ دار ہے تو وہ روزہ دار نہیں ، جیسا کہ جوہرۃ النیرۃ اور سراج الوہاج میں مذکور ہے۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الصوم، ج 01، ص 196، مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی شامی  میں ہے:”قال في السراج : وإذا نوى الصوم من النهار ينوي أنه صائم من أوله حتى لو نوى قبل الزوال أنه صائم في حين نوى لا من أوله لا يصير صائماً۔ یعنی صاحبِ سراج نے فرمایا کہ جب کوئی شخص دن میں روزے کی نیت کرے تو یوں نیت کرے کہ وہ اول وقت سے روزہ دار ہے، یہاں تک کہ اگر اُس نے زوال سے پہلے یوں نیت کہ وہ اِس وقت سے روزہ دار ہے ، دن کی ابتدا  سے روزہ دار نہیں تو وہ روزہ دار نہیں ہوگا ۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصوم، ج 03، ص 394، مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:”ادائے روزہ رمضان اور نذر معین اور نفل کے روزوں کے لیے نیّت کا وقت غروب آفتاب سے ضحوہ کبریٰ تک ہے، اس وقت میں جب نیّت کر لے، یہ روزے ہو جائیں گے۔۔۔۔۔دن میں نیّت کرے تو ضرور ہے کہ یہ نیّت کرے کہ میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں اور اگر یہ نیّت ہے کہ اب سے روزہ دار ہوں، صبح سے نہیں تو روزہ نہ ہوا۔  (بہار شریعت، ج01، ص967-968، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   واضح رہے کہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر حسبِ حال علمِ دین حاصل کرنا فرض ہےجس  میں کوتاہی کرنا ، جائز نہیں۔  زید  پر لازم ہے کہ فرض علوم اور خاص کر روزے کے متعلقہ ضروری مسائل سیکھنے میں اب تک جو اس نے کوتاہی کی ہے اس گناہ سے  وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں صدقِ دل سے توبہ کرےاور فی الفور فرض علوم کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے تاکہ وہ آئندہ ایسی کسی شرعی غلطی  سے محفوظ رہے۔

   علم کی فرضیت سے متعلق  ابن ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: ”طلب العلم فريضة على كل مسلم“ یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت ) پر فرض ہے۔(سننِ ابن ماجہ، باب فضل العلماء و حثہ، ج 01، ص 81، حدیث 224،  بیروت)

   علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمہ مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:”ای مکلف وھو العلم الذی لا یقدر المکلف بالجھل بہ کمعرفۃ الصانع وما یجب لہ وما یستحیل علیہ ومعرفۃ رسلہ، وکیفیۃ الفروض العینیۃ۔۔۔الخ“یعنی مکلف پر اس علم کا حاصل کرنا فرض ہے جس سے جاہل رہنے کی شریعت نے اجازت نہ دی ہو جیسے ذاتِ باری تعالیٰ اور اس کے لیے لازم و محال باتوں  کی معرفت ،  اس کے رسولوں کی معرفت، نیز جو عبادت ہر ایک پر لازم ہو ، اس کی کیفیت ۔  کی معرفت حاصل کرنا(ہر مکلف پر فرض ہے)۔(فیض القدیر، حرف الھمزۃ، ج 01، ص 542، المکتبۃ التجاریۃ  الکبری، مصر)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی (علم اصول عقائد) کا تعلم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں، پھر علم مسائل نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط ومفسدات جن کے جاننے سے نماز صحیح طور پر ادا کرسکے، پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم، مالک نصاب نامی ہو تو مسائل زکوٰۃ، صاحب استطاعت ہو تو مسائل حج، نکاح کیاچاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے، تاجر ہو تو مسائل بیع وشراء، مزارع پرمسائل زراعت، موجرومستاجر پر مسائل اجارہ، وعلٰی ہذا القیاس ہر اس شخص پر اس کی حالت موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرض عین ہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج 23، ص 624، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم