Din 12 Baje Safar Karna Ho Tu kya Us Din Ka Roza Chor Sakte Hain

دن بارہ بجے سفر کرنا ہو، تو کیا  اس دن کا روزہ چھوڑ سکتے ہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12318

تاریخ اجراء:        28ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/28جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی عرب شریف کی روانگی ہو اور تقریباً  دن بارہ بجے کی اس کی فلائٹ ہو، تو کیا اس صورت میں اسے اس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی؟ جبکہ لمبے سفر کے باعث طبیعت پر اثر پڑ نےاور قے ہونے کا بھی اندیشہ ہو؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت مسافرِ شرعی نہ ہو بلکہ اسے دن میں سفر کرنا ہو تو یہ سفر آج کے دن کا روزہ چھوڑنے کے لیے عذر نہیں بنے گا، اس دن کا روزہ رکھنا فرض ہوگا۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں اس سفر کی وجہ سے، یونہی بیان کردہ خدشات کی بنا پر، چھوٹی موٹی طبیعت کی خرابی کے سبب اس دن کا روزہ چھوڑنے کی ہرگز اجازت نہیں جب تک کہ مرض کی وہ کیفیت ثابت نہ ہوجائے جس کو شریعت نے روزہ توڑنے  یا نہ رکھنے کو رخصت قرار دیا ہے ۔

   سفرِ شرعی روزہ چھوڑنے کے لیے کب عذر نہیں بنے گا؟ اس حوالے سے بحر الرائق میں مذکور ہے:’’السفر فإنه ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه ولا يحل له الإفطار‘‘ یعنی سفر بھی روزہ چھوڑنے کا ایک عذر ہے لیکن جس دن میں اس نے سفر شروع کرنا ہو تو وہ دن کا سفر روزہ چھوڑنے کے لیے عذر نہیں بنے گا اور اس شخص کے لیے اس دن کا روزہ چھوڑنا حلال نہیں ہوگا۔(البحر الرائق، کتاب الصوم،  ج 02، ص 492، مطبوعہ کوئٹہ)

   "الاختیار" میں ہے:و ان سافر بعد طلوع الفجر لا یفطر ذلک الیوم لانہ لزمہ صومہ اذ ھو مقیم۔“یعنی اگر کسی شخص نے طلوعِ فجر کے بعد سفر پر جانا ہو تو اس سفر کی وجہ سے  اس دن کا روزہ چھوڑنا اس کے لیے جائز نہیں، کیونکہ اس دن کا روزہ اس پر لازم ہوچکا کہ وہ مقیم ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الصوم، ج01،ص173،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” دن میں سفر کیا تو اُس دن کا روزہ افطار کرنے کے لیے آج کا سفر عذر نہیں۔“(بہار شریعت، ج 01، ص 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاویٰ نوریہ میں ہے:”مسافر صبح صادق کے وقت اپنے شہر کی حدود میں ہو تو صوم لازم ہوجاتا ہے۔“(فتاوٰی نوریہ ، ج 02، ص 202-201، دار العلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور ضلع اوکاڑہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم