نابالغ بچے کو رمضان کے روزے رکھوانے کا حکم
مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Grw-352
تاریخ اجراء:07 رمضان المبارک1443ھ/09اپریل 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نا بالغ بچوں کو رمضان المبارک کے روزے رکھوانے کے متعلق کیا حکم شرعی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نابالغ پر روزہ فرض نہیں ،البتہ اگر نا بالغ بچہ یا بچی سات سال کے ہو جائیں اور روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ، روزہ انہیں ضرر نہ دیتا ہو، تو ان کے ولی پر لازم ہے کہ انہیں روزہ رکھوائےاور جب دس سال کے ہو جائیں ، تو ولی پر واجب ہے کہ روزہ رکھنے کے معاملےمیں ان پر سختی کرے اور نہ رکھنے کی صورت میں انہیں سزا دے۔جیسے سات سال کے بچے کو نماز کا حکم دینا اور دس سال کا ہو جانے پر نماز کے معاملے میں سختی کرنا ، نہ پڑھنے کی صورت میں سزا دینا ولی پر واجب ہے ،اسی طرح روزے کا حکم ہے کہ صحیح قو ل کے مطابق روزے کا حکم نماز کی طرح ہی ہے۔
امام اہل سنت ، مجدد دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’بچہ جیسے آٹھویں سا ل میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے اور جب اسے گیارھواں سال شروع ہو ،تو ولی پر واجب ہے کہ صوم و صلوۃ پر مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر نہ کرے ۔ حدیثِ صحیح میں ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ مروا اولادکم بالصلوۃ وھم ابناء سبع سنین و اضربوھم علیھا وھم ابناء عشر ‘‘ ترجمہ : جب بچے سات سال کے ہو جائیں، تو انہیں نماز کا کہو اور دس سال کے ہو جائیں، تو انہیں ترک نماز پر سزا دو۔
تنویر الابصار میں ہے : ’’وجب ضرب ابن عشر علیھا ‘‘ ترجمہ : ترکِ نماز پر دس سال کے بچے کو سزا دینا واجب ہے ۔
رد المحتار میں ہے :’’ظاھر الحدیث ان الامر لابن سبع واجب کالضرب والظاھر ایضا ان الوجوب بالمعنی المصطلح علیہ لا بمعنی الافتراض لان الحدیث ظنی فافھم‘‘ ترجمہ : ظاہر حدیث میں ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز کا کہنا اسی طرح واجب ہے جیسے دس سال کے بچے کو سزا دیناواجب ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ یہاں وجوب سے اصطلاحی وجوب مراد ہے، نہ کہ بمعنی فرض ، کیونکہ حدیث ظنی ہے ۔ پس غور کیجیے ۔
در مختار میں ہے :’’والصوم کالصلوۃ علی الصحیح ‘‘ ترجمہ :صحیح قول کے مطابق روزہ کا حکم نماز ہی کی طرح ہے ۔
عالمگیری میں ہے :’’ قال الرازی یؤمر الصبی اذا طاقہ‘‘ ترجمہ :اما م رازی نے فرمایا : جب بچہ توانا ہو جائے تو اسے نماز و روزہ کا حکم دیا جائے ۔ اسی میں ہے :’’ ھذا اذا لم یضر الصوم ببدنہ فان اضر لا یؤمر بہ ‘‘ ترجمہ : یہ اس وقت ہے جب روزہ جسمانی تکلیف کا سبب نہ بن رہا ہو ، اگر بن رہا ہو ،تو پھر اسے نہ کہاجائے ۔
اور پُر ظاہر کہ یہ احکام حدیث و فقہ میں مطلق و عام ، تو ولی نا بالغ ہفت سالہ یا اس سے بڑے کو اسی وقت ترکِ صوم کی اجازت دے سکتا ہے جبکہ فی نفسہ روزہ اسے ضرر پہنچائے، ورنہ بلا عذر شرعی اگر روزہ چھڑائے گا یا چھوڑنے پر سکوت کرے گا گنہگار ہو گا کہ اس پر امر یاضرب شرعا لازم اور تارک واجب، بزہ کار و آثم ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ346،345،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر رَمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو انہیں کسی بھی وقت رکھ سکتے ہیں
قضائے رمضان کے روزےکسی بھی موسم میں رکھ سکتےہیں؟
کیا تیس روزوں کا فدیہ ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو دے سکتے ہیں؟
کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟
کیا امتحانات کی وجہ سے طلبہ کا رمضان کےروزے قضا کرنا جائز ہے؟
سفر میں روزے کا حکم
سحری اور روزہ
کیا انجیکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟