Bache Ko Kis Umar Mein Roza Rakhwana Chahiye?

بچے کو کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہیے؟نیزنابالغ بچہ روزہ  توڑ د ے ،تو قضاء لازم ہے  ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0295

تاریخ اجراء:06شعبان المعظم 1445ھ/17 فروری  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بچے کو کتنے سال کی عمر میں رمضان کا روزہ  رکھوانا چاہئے؟ اگر نابالغ بچے کو روزہ رکھوایا اور اس نے عذر کی وجہ سے توڑدیا ،تو کیا وہ اس کی قضاء کرے گا؟اس طرح جتنے روزے توڑے وہ صحیح طرح یاد نہ ہوں ،تو اب کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ بچے کو روزے  رکھوانے کا وہی حکم ہے، جو اس کو نماز  پڑھوانے کا ہے یعنی جب بچے کی عمر کے سات سال مکمل ہوجائیں اورآٹھواں سال شروع ہو،تو اس کے ولی پر لازم ہے کہ اس کو فرض روزہ رکھنے کا حکم دے اور جب اس کی عمر کے دس سال مکمل ہوجائیں اور گیارہواں سال شروع ہو  اور روزہ نہ رکھے، تو ولی پر واجب ہے کہ اس کو سختی کے ساتھ  روزہ رکھوائے ، البتہ نماز میں تو مطلقا ان عمروں کے مطابق حکم ہے اور بدن کی صحت کا کوئی اعتبار نہیں، لیکن  روزہ رکھوانے کے حکم میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ بچے کو روزہ رکھنے کا حکم  اسی وقت دیا جائے گا،جبکہ وہ  طاقت و قوت کے اعتبار سے  روزہ رکھنے کے قابل ہو،لہٰذا اگر اس کو روزے کی طاقت ہی نہ ہو اور روزہ رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو، تو اب اس  کو روزہ نہیں رکھوایا جائے گا۔

   نماز اور روزے کے حکم میں دوسرا فرق یہ ہے کہ فی نفسہ نابالغ بچے پر روزہ رکھنا شرعی طور پر  فرض و واجب نہیں ہے ،لہٰذا اگر اس نے روزہ رکھ کر توڑدیا، چاہے عذر کی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے، تو اس پر اس روزے کی قضاء لازم نہیں اور نہ ہی کفارہ لازم ہے ،لیکن بچہ نماز توڑ دے تو نماز کے اعادے کا حکم دیا جائے گا۔

   سنن ابی داؤد کی حدیث پاک ہے،حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:”مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر“ترجمہ:اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں مارکر نماز پڑھنے کا حکم دو ۔(سنن ابی داؤد،ج01،ص 133،المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   شرح المشکوٰۃ للامام الطیبی میں ہے :”يعني إذا بلغ أولادكم سبع سنين فأمروهم بأداء الصلاة؛ ليعتادوها ويستأنسوا بها. فإذا بلغوا عشراً  اضربوا علي تركها“ترجمہ:حدیث پاک میں مراد یہ ہے کہ جب تمہاری اولاد سات سال کو پہنچ جائے ،تو ان کو نماز کی ادائیگی کا حکم دو، تاکہ ان کو نماز کی عادت  پڑے اور وہ اس سے مانوس ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں، تو ان کو ترک نماز پر مارو۔(شرح المشکوٰۃ للطیبی،ج03،ص 870،مكتبة نزار مصطفى الباز ،مكة المكرمہ)

   تنویر الابصار میں ہے :” هي فرض عين على كل مكلف وإن وجب ضرب ابن عشر عليها“ترجمہ:نماز ہر مکلف پر فرض ہے ،اگرچہ دس سال کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا واجب ہے ۔

   اس کے تحت در مختار میں ہے :” قلت والصوم كالصلاة على الصحيح“ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ اور صحیح قول کے مطابق روزے کا حکم بھی نماز والا ہی ہے ۔

   اسی کے تحت رد المحتار میں ہے :”كأنه قال ولا يفترض على غير المكلف وإن وجب أي على الولي ضرب ابن عشر، وذلك ليتخلق بفعلها ويعتاده لا لافتراضها ح. وظاهر الحديث أن الأمر لابن سبع واجب كالضرب. والظاهر أيضا أن الوجوب بالمعنى المصطلح عليه لا بمعنى الافتراض؛ لأن الحديث ظني ترجمہ:گویاکہ مصنف علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا کہ نماز غیر مکلف پر فرض نہیں، اگرچہ ولی پر دس سالہ بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا واجب ہے اور یہ اس لئے تاکہ اس بچے کو نماز پڑھنے کی مشق  و عادت ہوجائے، نہ کہ اس لیے کہ نماز بچے پر فرض ہے۔اور حدیث کا ظاہر  یہ ہے کہ  سات سالہ بچے کو نماز کا حکم دینا  اسی طرح واجب ہے  ،جیسے ضرب واجب ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وجوب سے اصطلاحی معنیٰ مراد ہے نہ کہ فرض والا معنیٰ کیونکہ حدیث ظنی ہے ۔(تنویر الابصار و الدر المختار مع رد المحتار،ج01،ص 351 تا 352،دار الفکر ،بیروت)

   نابالغ بچے کو روزہ اسی وقت رکھوایا جائے گا،جبکہ اس کو طاقت ہو ورنہ نہیں ،چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :” يؤمر الصبي إذا أطاقه وهذا إذا لم يضر الصوم ببدنه فإن أضر لا يؤمر به ترجمہ:بچے کو روزے کا حکم دیا جائے گا ،جبکہ اس کو طاقت ہو اور یہ بھی اسی وقت ہے جبکہ روزہ بچے کے بدن کو نقصان نہ پہنچائے، تو اگر روزہ اس کے لیے باعث نقصان ہو تو بچے کو اس کا حکم نہیں دیا جائے گا ۔(الفتاوی الھندیۃ،ج01،ص 214،دار الفکر ،بیروت)

   نابالغ بچے نے حکم کے باوجود روزہ نہ رکھا یا رکھ کر توڑ دیا بہر  صورت اس پر قضاء و کفارہ کچھ لازم نہیں ،چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے :”وإذا أمر فلم يصم فلا قضاء عليه“ترجمہ:اور ولی نے بچے کو روزے کا حکم دیا اور اس نے روزہ نہ رکھا تو اس پر قضاء لازم نہیں ۔(الفتاوی الھندیۃ،ج01،ص 214،دار الفکر ،بیروت)

   احکام الصغار للاستروشنی اور رد المحتار میں ہے:” الصبي إذا أفسد صومه لا يقضي؛ لأنه يلحقه في ذلك مشقة بخلاف الصلاة فإنه يؤمر بالإعادة؛ لأنه لا يلحقه مشقة“ترجمہ:بچے نے روزہ رکھ کر توڑ دیا، تو وہ اس کی قضاء نہیں کرے گا ،کیونکہ قضاء کی وجہ سے اس کو تکلیف پہنچے گی ،بر خلاف نماز کے کہ اس کو نماز کے اعادے کا حکم دیا جائے گا ،کیونکہ ا س صورت میں اس کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔(احکام الصغار،ص 31،دار الکتب العلمیہ،بیروت) (رد المحتار،ج02،ص 409،دار الفکر بیروت)

   فتاوٰی رضویہ شریف میں ہے :” نابالغ پر تو قلمِ شرع جاری ہی نہیں ،وُہ اگر بے عذر بھی افطار کرے اُسے گنہگار نہ کہیں گے۔۔مگر بیان کرنا اس کا ہے کہ بچّہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے،اور جب اُسے گیارہواں  سال شروع ہو،تو ولی پر واجب ہے کہ صوم و صلوۃ پر مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر نہ کرے۔“فتاوی رضویہ،ج10،ص345،346 رضافاؤنڈیشن، لاھور(

   بہارشریعت میں ہے:” بچہ کی عمر دس(۱۰ )سال کی ہو جائے اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس سے روزہ رکھوایا جائے، نہ رکھے تو مار کر رکھوائیں اگر پوری طاقت دیکھی جائے، اور رکھ کر توڑ دیا تو قضا کا حکم نہ دیں گے اور نماز توڑے تو پھر پڑھوائیں۔“(بھارشریعت،ج01،حصہ05،ص990،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم