Azan Ke Doran Sehri Karne Se Mutaliq Ek Hadees Pak Ki Sharah?

اذان کے دوران سحری کرنے سے متعلق ایک حدیث پاک کی شرح

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق: مفتی محمد ھاشم خان عطاری

فتوی  نمبر: Lar-6628

تاریخ  اجراء: 13رمضان المبارک3814ھ/09جون2017ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ روزہ دارسحری کےوقت کھاناکھارہاہوکہ اس دوران سحری کاوقت ختم ہوجائے،صبح صادق طلوع کرآئے اورفجرکی اذان شروع ہوجائے، تواب روزہ دارکاکھاناجاری رکھنا کیساہے؟بعض لوگ سنن ابوداؤدشریف کی درج ذیل روایت کو دلیل بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ سحری کاوقت ختم ہوجانے کے باوجودفجرکی اذان کے وقت کھانادرست ہے ۔روایت یہ ہے :’’عن أبي هريرة قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ’’إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه‘‘ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں :رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب تم میں سے کوئی نداء سُنے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہو،توجب تک اس سے اپنی حاجت نہ پوری کرے ،اسے نہ رکھے ۔(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یسمع النداء والاناء علی یدہ،جلد02،صفحہ304،مطبوعہ بیروت)

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   بحکم قرآن سحری کرنے کی اجازت اس وقت تک ہے جب تک فجریعنی صبح صادق طلوع نہ کرے ،جب فجریعنی صبح صادق طلوع کرآئے اس کے بعدروزہ دارکے لیے کھاناکھاناحرام ہے۔قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے :﴿ وَکُلُوۡا وَاشْرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیۡطُ الۡاَبْیَضُ مِنَ الْخَیۡطِ الۡاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِۚ﴾ترجمہ کنزالایمان :اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے (پوپھٹ کر)پھر رات آنے تک روزے پورے کرو۔(سورۃ البقرۃ،پ02،آیت187)

   اس آیت مبارکہ کے تحت محمدبن جریرطبری(متوفی:310ھ)تفسیرطبری میں تحریرفرماتے ہیں:”عن ابن عباس:﴿وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر﴾ يعني الليل من النهار فأحل لكم المجامعة والأكل والشرب حتى يتبين لكم الصبح، فإذا تبين الصبح حرم عليهما لمجامعة والأكل والشرب حتى يتموا الصيام إلى الليل“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت مبارکہ "اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے"کی تفسیرمیں مروی ہے کہ سفیدی کاڈوراسیاہی کے ڈورے سے جداہوجائے ،اس سے مرادہے کہ رات دن سے جداہوجائے ۔پس تمہارے لیے ہمبستری اورکھاناپینااس وقت تک حلال ہے جب تک تمہارے لیے صبح نہ ظاہرہوجائے پس جب صبح ظاہرہوجائےتوروزہ داروں پرہمبستری،کھاناپیناحرام ہے  یہاں تک کہ وہ روزے کورات تک پوراکریں ۔

(تفسیرطبری،ج03،ص511،موسسۃ الرسالۃ)

   اسی طرح صحیح احادیث مبارکہ میں بھی اس بات کوواضح کیاگیاہے کہ سحری اسی وقت تک کھانی ہے جب تک صبح صادق نہ ہوجائے پس  جب صبح صادق ہوجائے تواب سحری کرناختم کردیاجائے ۔صحیح مسلم شریف میں ہے :”عن سمرة بن جندب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يغرنكم من سحوركم أذان بلال، ولا بياض الأفق المستطيل هكذا، حتى يستطير هكذا» وحكاه حماد بيديه، قال: يعني معترضا“ ترجمہ:حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا:رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:تمہیں تمہاری سحری سے دھوکے میں نہ ڈالے بلال کی اذان اورنہ افق کی اس طرح لمبی سفیدی یہاں تک کہ اس طرح پھیل جائے اورحمادنے اس کواپنے ہاتھوں کے ساتھ بیان کیا،فرمایا : یعنی چوڑائی میں۔(صحیح مسلم،باب بیان ان الدخول فی الصوم یحصل بطلوع الفجر،وان لہ الاکل وغیرہ حتی یطلع الفجرالخ،ج02، ص770، بیروت)

   صحیح مسلم میں اس سے اگلی روایت یوں ہے:”عن سوادةقال: سمعت سمرة بن جندب رضي الله عنه، وهو يخطب يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «لا يغرنكم نداء بلال ولا هذا البياض حتى يبدو الفجر - أو قال - حتى ينفجر الفجر»“ ترجمہ:حضرت سواده رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ کوخطبہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے سناکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہ تمہیں بلال کی اذان دھوکے میں ڈالے اور نہ یہ سفیدی یہاں تک کہ فجرظاہرہوجائے یافرمایا:یہاں تک کہ فجرپھوٹ پڑے ۔(صحیح مسلم،باب بیان ان الدخول فی الصوم یحصل بطلوع الفجر،وان لہ الاکل وغیرہ حتی یطلع الفجرالخ،ج02،ص770، بیروت)

   پس آیت مبارکہ اوراحادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سحری کرنے کاوقت طلوع صبح صادق تک ہے جب صبح صادق طلوع کرآئے تواب روزہ دارکے لیے کھاناپیناحرام ہے ۔

   اب رہی وہ روایت جوسنن ابی داؤدکے حوالے سے سوال میں مذکورہے تواس کی توجیہات میں محدثین نے درج ذیل کلام فرمایاہے:

   سنن ابی داودکی روایت میں جولفظ "نداء"مذکورہے اس کامطلب ہے نمازکے لیے بلانا۔

    (الف)اب اس بلانے سےمغرب کی نمازکی  اقامت بھی مرادہوسکتی ہے کہ جب کسی کاروزہ ہواورمغرب کی نمازکی اقامت اس حال میں ہوکہ اس کے سامنے کھاناہوتواپنی حاجت پوری کرلے ۔

   اس معنی کی تائیدصحیح ابن حبان میں ہے :” عن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم"إذا أقيمت الصلاة وأحدكم صائم فليبدأ بالعشاء قبل صلاة المغرب ولا تعجلوا عن عشائكم“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرمایا: رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب نمازقائم کی جائے اورتم میں سے کسی کاروزہ ہوتواسے چاہیے مغرب کی نمازسے پہلے کھاناکھالے اوراپنے رات کے کھانے سے جلدی نہ کرو۔(صحیح ابن حبان،باب فرض الجماعۃ والاعذارالتی تبیح ترکھا،ج05،ص422، موسسۃ الرسالۃ،بیروت)

   اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماکاجس دن روزہ ہوتااوررات کاکھاناآجاتاتوآپ پہلے کھاناکھاتے پھرنمازادافرماتے ۔ چنانچہ صحیح ابن حبان میں ہے :”كان ابن عمر إذا غربت الشمس وتبين له الليل، فكان أحيانا يقدم عشاءه وهو صائم والمؤذن يؤذن، ثم يقيم وهو يسمع فلا يترك عشاءه ولا يعجل حتى يقضي عشاءه، ثم يخرج فيصلي، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تعجلوا عن عشائكم إذا قدم إليكم» “ ترجمہ:جب سورج غروب ہوتا اور رات حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کے لیے واضح ہوجاتی توبعض اوقات آپ کے سامنے رات کاکھانالایاجاتااورآپ روزے سے ہوتے اورموذن اذان کہتاپھراقامت کہتااورآپ سن رہے ہوتے تھے تو اپنا رات کاکھاناترک نہ فرماتے اورجلدی نہ کرتے جب تک رات کاکھانامکمل نہ کرلیتے پھرباہرتشریف لے جاکر نماز ادا فرماتے اورفرماتے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب تمہارے سامنے رات کاکھانالایاجائے تواس سے جلدی نہ کرو۔(صحیح ابن حبان،باب فرض الجماعۃ والاعذارالتی تبیح ترکھا، ج05، ص420،موسسۃ الرسالۃ،بیروت)

   (ب)اس بلانے سے اذان بھی مرادہوسکتی ہےاوراگراذان مرادہوتوپھراس میں احتمال ہے کہ یاتومغرب کی اذان مرادہے کہ اگرکسی اور مقصدکے لیےبرتن ہاتھ میں لیاہواتھاکہ اذان ہوگئی تواب برتن رکھنے سے پہلے افطارکرلو تاخیرنہ کرو۔مرقاۃ المفاتیح میں ہے :”وقال ابن حجر تبعا للطيبي: إيماء ويصح أن يراد من الحديث طلب تعجيل الفطر، أي إذا سمع أحدكم نداء المغرب وصادف ذلك أن الإناء في يده لحالة أخرى فليبادر بالفطر منه ولا يؤخر إلى وضعه“ترجمہ:اورابن حجرنے طیبی کی اتباع میں اشارۃ فرمایاکہ اس حدیث سے افطارمیں تعجیل کی طلب مرادلینابھی صحیح ہوسکتاہے یعنی مطلب یہ ہوگاکہ جب تم میں سے کوئی مغرب کی اذان سنے اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں کسی دوسرے مقصدکے لیے برتن ہوتواس سے افطارکرنے میں جلدی کرے اوراس کے رکھنے تک افطارکوموخرنہ کرے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،باب فی مسائل متفرقۃ من کتاب الصوم،ج04،ص1384، دارالفکر،بیروت،لبنان)

   اسی طرح فیض القدیرمیں علامہ مناوی علیہ الرحمۃ اس کاایک احتمال یہی بیان فرماتے ہیں ،عبارت یہ ہے :”وقيل المراد أذان المغرب فإذا سمعه الصائم والإناء في يده فلا يضعه بل يفطر فورا محافظة على تعجيل الفطر“(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر،باب الھمزۃ،ج01،ص377،المکتبۃ التجاریۃ،مصر)

   (ج)یااس سے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ اذان مرادہوگی جو صبح صادق ہونے سے پہلے رات میں اذان دیتے تھے ۔تواب مطلب ہوگاکہ بلال کی اذان ہواورتم سحری کھارہے ہوتوسحری کھانابندنہ کروبلکہ کھاتے رہوجب تک عبداللہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے ۔پس اب بھی اگرکہیں کوئی صبح صادق سے پہلے اذان دیتاہے اورسحری کرنے والے کومعلوم ہے کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی تووہ کھاناپیناجاری رکھ سکتاہے جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجائے ۔السنن الکبری للبیہقی میں ہے:”وقول النبي صلى الله عليه وسلم"إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده"خبرا عن النداء الأول ليكون موافقا لما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنبأ أبو الفضل بن إبراهيم، ثنا أحمد بن سلمة، ثنا إسحاق بن إبراهيم، أنبأ جرير، والمعتمر بن سليمان، عن سليمان التيمي، عن أبي عثمان النهدي، عن عبد الله بن مسعود، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يمنعن أحدا منكم أذان بلال من سحوره، فإنما ينادي ليوقظ نائمكم، ويرجع قائمكم “ ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کافرمان:"جب تم میں سے کوئی نداء سنے اوراس برتن اس کے ہاتھ میں ہو"اس میں یہ احتمال ہے کہ یہاں پہلی اذان کے متعلق بات کی گئی ہو،اوریہ احتمال اس لیے بیان کیاہے تاکہ یہ اس روایت کے موافق ہوجائے جوحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیاکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:"تم میں سے کسی کوبلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکےکہ وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سے سونے والاجاگ جائے اورقیام کرنے والاواپس آجائے۔(السنن الکبری للبیہقی،کتاب الصیام،ج04،ص369،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   اس معنی کی تائیدمیں بخاری شریف کی یہ روایت ہے :”عن عبد الله بن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم»“ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک بلال رات میں اذان دیتے ہیں توتم کھاواورپیوجب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے ۔(صحیح البخاری، کتاب الاذان،باب الاذان بعدالفجر،ج01،ص127،دارطوق النجاۃ)

   اسی معنی کی تائیدووضاحت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماکافتوی بھی ہے ۔ چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں ہے :”سئل ابن عباس عن الرجل يسمع الأذان، وعليه ليل قال: «فليأكل»“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے اس شخص کے متعلق سوال کیاگیاجواذان سنتاہے حالانکہ ابھی رات باقی ہے توجواب میں فرمایا:اسے کھاناکھاتے رہناچاہیے ۔(مصنف عبدالرزاق،باب الطعام والشراب مع الشک،ج04،ص172،المجلس العلمی، الھند)

   علامہ خطابی(متوفی :388ھ) سنن ابی داودکی شرح معالم السنن میں سنن ابی داودکی سوال میں مذکورروایت ذکر کرنے کے بعداسی توجیہ کواپنے ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :”قلت هذا على قوله إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم “ ترجمہ:میں کہتاہوں:یہ روایت آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق ہے کہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں توتم اس وقت تک کھاوپیوجب تک ابن ام مکتوم نہ اذان دے ۔(معالم السنن،کتاب الصیام،ومن باب الرجل یسمع النداء والاناء علی یدہ،ج02،ص106،المکتبۃ العلمیۃ)

   مرقاۃ میں اسی روایت کی توجیہ میں یہ لکھاہے:” وهذا إذا علم أو ظن عدم الطلوع وقال ابن الملك: هذا إذا لم يعلم طلوع الصبح، أما إذا علم أنه قد طلع أو شك فيه فلا “ترجمہ:اوریہ اس صورت میں ہے جبکہ سحری کرنے والے کومعلوم ہویاظن غالب ہوکہ ابھی صبح صادق طلوع نہیں ہوئی اورابن ملک نے فرمایا:یہ اس صورت میں ہے جبکہ اسے صبح صادق کے طلوع کاعلم نہ ہوبہرحال جب اسے طلوع کاعلم ہوجائے یااس میں شک ہوتواس صورت میں کھاناجاری رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،باب فی مسائل متفرقۃ من کتاب الصوم،ج04،ص1384،دارالفکر،بیروت)

   فیض القدیرشرح الجامع الصغیرمیں علامہ مناوی (متوفی:1031ھ)علیہ الرحمۃ نے بھی مرقاۃ کی مثل تاویل فرمائی ہے اورعلامہ رافعی سے علامہ خطابی کی مثل روایت کیاہے کہ اس سے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی رات والی اذان مرادہے ۔چنانچہ عبارت یہ ہے :”(إذا سمع أحدكم النداء) أي الأذان للصبح وهو يريد الصوم (والإناء) مبتدأ (على يده) خبره (فلا يضعه) نهي أو نفي بمعناه (حتى يقضي حاجته) بأن يشرب منه كفايته ما لم يتحقق طلوع الفجر أو يظنه يقرب منه وما ذكر من أن المراد به أذان الصبح هو ما جزم به الرافعي فقال: أراد أذان بلال الأول بدليل إن بلالا يؤذن بلیل فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم “

(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر،باب الھمزۃ،ج01،ص377،المکتبۃ التجاریۃ،مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم