مرد اصلِ مسجد (یعنی وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لئے خاص کرکے وقف
ہوتی ہے) سے متصل وقف جگہ جو ضرویات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف
ہوتی ہے ، جسے فنائے مسجد کہا جاتا ہے ، اس میں بنے ہوئے غسل
خانہ میں دورانِ اعتکاف بغیر ضرورت کے بھی غسل کرسکتا ہے
، فنائے مسجد میں جانے سے اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا ، جبکہ عورت
گھر میں متعیّن کردہ جگہ میں اعتکاف کرتی ہے ، جو” مسجدِ
بیت “ کہلاتی ہےاور مسجدِ بیت میں فنا کا کوئی تصور نہیں ہوتا
اس لئےعورت مسجدِ بیت سے باہر بلا ضرورت نہیں نکل سکتی ، صورتِ
مسئولہ میں عورت اگرفرض غسل کے علاوہ کسی غسل مثلاً گرمی
کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے نکلے گی ، تو اس کا اعتکاف ٹوٹ
جائے گا۔
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’فِنائے مسجد جو جگہ مسجدسے باہَراس سے مُلحَق ضروریاتِ مسجدکیلئے ہے،
مَثَلًا جوتا اتارنے کی جگہ اور غُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے
سے اِعتِکاف نہیں ٹوٹے گا۔“ مزید آگے فرماتے ہیں : ”فنائے
مسجداس مُعامَلہ میں حکمِ مسجد میں ہے ۔ ‘‘( فتاویٰ
امجدیہ ، کتاب الصوم ، جلد 1 ، صفحہ
399 ، مکتبہ رضویہ ،کراچی )
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ فرماتے ہیں:”جب وہ مدارس متعلّقِ مسجد، حدودِ مسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں
راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کاامتیاز
کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں ،
یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کو جانا ، جائز کہ وہ گویا
مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے۔وھذا
ما قال الامام الطحاوی انّ حجرۃ امّ المؤمنین من المسجد،
فی ردّ المحتار عن البدائع لو صعد ای: المعتکف المنارۃ لم
یفسد بلاخلاف لانّھا منہ لانّہ یمنع فیھا من کلّ مایمنع
فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد یعنی یہی بات امام طحاوی نے
فرمائی کہ اُمُّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے۔
ردالمحتارمیں بدائع سے ہے کہ اگر معتکف منارہ پرچڑھا
توبالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول
وغیرہ منع ہے ، جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر
گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا۔‘‘( فتاویٰ
رضویہ ، باب الوتر و النوافل ، جلد 7 ، صفحہ 453 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
علامہ علاؤ الدّین
حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریرفرماتے
ہیں :” ( الخروج الّا لحاجة الانسان ) طبيعيّة كبول وغائط
وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر“یعنی معتکف مسجد سے نہ نکلے مگر حاجت ِ طبعیہ کی
وجہ سے جیسے پیشاب،پاخانہ اور احتلام ہوتو غسل کیلئے
جبکہ اُسے مسجد میں غسل کرنا ممکن نہ ہو۔جیسا کہ نہر میں
ہے۔( در مختار ، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف ، جلد 3 ، صفحہ 501 ،
مطبوعہ کوئٹہ )
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قُدِّسَ سِرُّہ ٗ تحریر فرماتے ہیں : معتکف کو
مسجد سے نکلنے کے دوعذر ہیں:
ایک حاجتِ طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے
جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل،
مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہوسکیں
یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و
غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی
کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ، ناجائز
ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر
سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجدمیں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد
سے نکلنا جائز نہیں، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوہیں
اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو
باہر جانے کی اب اجازت نہیں۔
دوم حاجتِ شرعی مثلاً عید
یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا،
جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا
راستہ اندر سے ہو تو غَیرِ مؤذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے ، مؤذن
کی تخصیص نہیں۔‘‘( بھارِ شریعت ،
حصہ 5 ، اعتکاف کا بیان ، جلد 1 ، صفحہ
1023 ، 1024 ، مکتبۃ المدیہ ،
کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم