عورت کے لیے کفارے کے روزے رکھنے کا مسئلہ؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:  Nor-11607

تاریخ اجراء: 19شوال المکرم1442ھ/31مئی2021 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ ایک عورت نے چھ شوال سے کفارے کے روزے شروع کیے، ان روزوں  کو رکھ رہی تھی کہ شوال کے مہینے ہی میں حیض آگیا، سات دن حیض رہا ،ان ایام میں روزے نہ رکھے، حیض ختم ہونے کے اگلے دن  سے پھر روزے رکھنا شروع کردیئے، ذیقعدہ کے  مہینےمیں بھی سات دن حیض کا  خون آیا،ان ایام میں روزے نہ رکھے، ان ایام کے ختم ہوجانے کے بعد پھر سے روزے رکھنا شروع کردیئے، لیکن ابھی کفارے کے روزے مکمل نہ ہوئے تھے کہ ذی الحج کے وہ ایام شروع ہوگئے جن میں روزے رکھنا ممنوع ہے،ان ممنوع ایام میں روزے نہ رکھے ،ممنوع ایام کے بعد پھر سے روزے رکھے اور ساٹھ روزے مکمل کردیئے۔کیا اس عورت کا یہ کفارہ کافی ہے یا نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں پے درپے کفارے کے روزے نہ رکھنے کی وجہ سے کفارہ ادا نہیں ہوا ،کفارے کے روزے پھر سے رکھنے ہوں گے ۔

    اس مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ کفارے کےروزے میں جو فاصلہ ایامِ حیض میں روزے نہ رکھنے کی وجہ سے ہو ا ہے،اس فاصلے کو شرع نے معاف قرار دیا ہے،اس کی وجہ سے روزے کے پے درپے رکھنے کی شرط پر شرعا اثر نہیں پڑتا،کیونکہ  حیض شرعی و طبعی عذر ہے، جو عام طور پر ہر مہینے ہی عورت کو پیش آتا ہے،البتہ ذی الحجہ کی دس ،گیارہ ،بارہ اور تیرہ  تاریخ  کا کفارے کے روزوں کے درمیان میں آجانے کی وجہ سے کفارہ ادا نہ ہوا ، کیونکہ کفارہ ادا کرنے میں یہ شرط ہے کہ  اس مدت کے اندرنہ تو ماہ رمضان آتا ہو اور نہ ہی وہ پانچ ایام درمیان میں آتے ہوں جن میں روزے رکھنا جائز نہیں ۔ وہ پانچ ایام یہ ہیں: عید الفطر کا دن، ذو الحجہ کی دس ،گیارہ ،بارہ اور تیرہ تاریخ ۔

    روزے کےکفارے کے درمیان حیض آجانے کے حکم کو بیان کرتےہوئے بدائع الصنائع میں ہے:”اذا افطرت المراة بسبب الحيض الذی لا يتصور خلو شهر عنه  انها كما  طهرت يجب عليها ان تصل  وتتابع حتى لو تركت يجب عليها الاستقبال“ یعنی :دورانِ کفارہ حیض آنے کے سبب عورت روزہ چھوڑے گی کہ عام طور پر کوئی مہینا حیض سے خالی نہیں ہوتا ،پھر پاک ہونےپراس پر لازم ہوگاکہ باقی رہ جانے والےروزےمسلسل رکھے یہاں تک کہ اگرپاک ہونے کے بعد ایک دن بھی روزہ چھوڑا، تونئے سرے سےکفارے کے روزے رکھنے ہوں گے۔

(بدائع الصنائع ،ج2،ص582،مطبوعہ دارالحدیث، مصر)

    اسی طرح صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:’’اگرعورت نےرمضان کاروزہ توڑ دیا اور کفارہ میں روزےرکھ رہی تھی اورحیض آگیا، تو سرے سے رکھنے کا حکم نہیں ،بلکہ جتنے باقی ہیں اُن کا رکھنا کافی ہے۔

(بھار شریعت،ج2،ص214، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    کفارہ اداکرتے ہوئے اگردرمیان میں وہ ایام آجائیں جن میں روزہ رکھناممنوع ہے،تو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے الجوہرۃالنیرۃ میں ہے:”إذا كفر بالصيام وأفطر يوما لعذر مرض أو سفر فإنه يستأنف الصوم وكذا لو جاء يوم الفطر أو يوم النحر أو أيام التشريق فإنه يستأنف “یعنی:جب وہ روزوں کے ساتھ کفارہ اداکررہاہو اور مرض یاسفرکےعذرکےپیش نظرکسی دن افطارکرلے،تووہ پھر سے کفارے کےروزےرکھےگا،اسی طرح اگریوم الفطریایوم النحریاایام تشریق درمیان میں آگئے،توبھی وہ پھرسےکفارے کے روزےرکھےگا۔

(الجوھرۃالنیرۃ،ج2،ص138،مطبوعہ کراچی)

    اسی طرح تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق کے حاشیہ چلپی میں ہے:”ولو أفطر يوما لعذر من مرض أو سفر فإنه يستقبل الصيام وكذا لو جاء يوم الفطر أو يوم النحر أو أيام التشريق فإنه يستقبل الصوم “یعنی:اگر اس نےایک دن بھی مرض یاسفر کےعذرکی وجہ سےافطارکرلیا،تو وہ نئے سرے سے روزےرکھے،اسی طرح اگریوم الفطریایوم النحریاایام تشریق درمیان میں آگئے،توبھی وہ پھرسےکفارے کے روزےرکھےگا۔

(حاشیہ چلپی معہ تبیین الحقائق ،ج3،ص10،مطبوعہ ملتان)

    صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  لکھتے ہیں :”روزے سے کفارہ ادا کرنے میں یہ شرط ہے کہ نہ اِس مدت کے اندر ماہ رمضان ہو، نہ عید الفطر، نہ عیداضحیٰ نہ ایام تشریق۔‘‘

   (بھارشریعت ،ج2،ص213،مطبوعہ مکتبہ  المدینۃ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم