کیا شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ  ہے؟

مجیب:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:22رمضان المبارک 1440 ھ/28مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ شوال میں  چھ روزے رکھ سکتے ہیں یانہیں ؟سناہے کہ یہ روزے رکھنا مکروہ ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عیدالفطرکے دن کے بعدسے شوال کے چھ روزے متصلاًیامتفرقاًرکھنے میں شرعاًحرج نہیں بلکہ مستحب اورباعث ثواب ہے ، البتہ یہ روزےاس طرح رکھناکہ رمضان کے روزوں سے متصل ہوں یعنی عیدالفطروالے دن بھی روزہ رکھےاوراس کے بعدپانچ روزے رکھے  ، تو مکروہ ہے۔

    مسلم و ابو داود و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و طبرانی ابو ایوب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : ( واللفظ للمسلم)’’أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال، كان كصيام الدهر‘‘ترجمہ:بیشک  رسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا۔

(الصحیح لمسلم ،جلد2،صفحہ822،دار احياء التراث العربی، بيروت)

    بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے ’’ المكروه هوأ ن يصوم يوم الفطر، ويصوم بعده خمسة أيام،فأما إذا أفطر يوم العيد ثم صام بعده ستة أيام: فليس بمكروه بل هو مستحب وسنة‘‘ترجمہ:مکروہ یہ ہے کہ عیدالفطرکے دن روزہ رکھے اوراس کے بعدپانچ دن روزہ رکھے ،پس جب عیدکے دن افطارکیایعنی روزہ نہ رکھاپھراس کے بعدچھ روزے رکھے پس یہ مکروہ نہیں ہے بلکہ یہ مستحب وسنت ہے ۔

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،جلد2،صفحہ78، دار الكتب العلميہ،بیروت)

    المحيط البرهانی فی الفقہ النعمانی میں ہے : ’’ و عامۃ المتاخرین لم یروا بہ باسا ‘‘ ترجمہ:اورعام متاخرین علماء اس بارے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ۔

       (المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی،جلد2،صفحہ393،دارالكتب العلميہ،بيروت)

    فتاوی ہندیہ میں ہے:’’والأصح أنه لا بأس به كذا فی محيط‘‘ترجمہ:اورصحیح یہ ہے کہ ان روزوں کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں جیساکہ محیط میں ہے ۔

     (الفتاوی الھندیہ ،جلد1،صفحہ201،دارالفکر،بیروت)

    مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشادفرماتے ہیں :’’ نفل دو ہیں: نفل مسنون، نفل مستحب جیسے عاشورا یعنی دسویں محرم کاروزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی اور ہر مہینے میں تیرھویں، چودھویں، پندرھویں اور عرفہ کا روزہ، پیر اور جمعرات کا روزہ، شش عید کے روزے ، صوم داود علیہ السلام، یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار۔‘‘

 (بھارشریعت،جلد1،حصہ5،صفحہ966،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم