Razai Khala Zaad Behan Se Parda Hoga Ya Nahi ?

رضاعی خالہ زاد بہن سے پردہ ہوگا یا نہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13034

تاریخ اجراء:        24ربیع الاول1445 ھ/11اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ جمیلہ اور بکر دونوں میاں بیوی ہیں اور بےاولاد تھے، ان دونوں نے زید کو گود لیا۔ زید کو جمیلہ کی بہن نے دودھ پلاکر رضاعت کا رشتہ قائم کیا۔ کچھ سالوں  کے بعد  جمیلہ اور بکر کی  اپنی بیٹی زینب بھی پیدا ہوگئی۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد زید اور زینب کے درمیان پردے کا کیا معاملہ ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید اور زینب کے درمیان پردہ فرض ہے۔

   تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ زینب اور زید دودھ کے رشتے کے اعتبار سے آپس میں خالہ زاد بھائی بہن ہیں ، وہ اس طرح کہ زید زینب کی سگی خالہ کا رضاعی بیٹا ہے اور زینب زید کی رضاعی خالہ کی سگی بیٹی ہے، اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں رضاعت سے فقط وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوں ،  جو رشتے نسب سے حرام نہ ہوں وہ رضاعت سے بھی حرام نہیں ہوتے، لہذا جس طرح  نسبی خالہ زاد بہن بھائی نامحرم ہوتے ہیں اور  ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے ، ان کے درمیان  پردہ فرض ہوتا ہے، اسی طرح دودھ کے رشتے سے  خالہ زاد بھائی بہن بھی نامحرم ہیں ، ان کے درمیان  بھی پردہ فرض ہے۔  لہذا صورتِ مسئولہ میں زینب اور زید آپس میں نامحرم ہیں،  ان کے مابین بلاشبہ پردہ فرض ہے۔

   جورشتے نسب سے حرام ہیں رضاعت سے بھی حرام ہیں۔ جیساکہ بخاری شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب“ ترجمہ:جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت(دودھ کے رشتے کی وجہ ) سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ (بخاری،کتاب الشہادات ، باب الشہادۃ علی الخ ، ج1، ص360،مطبوعہ کراچی)

   مرآۃ المناجیح میں اس حوالے سے مذکور  ہے: ”دودھ پینے والے بچے پر دائی کے تمام وہ اہل قرابت حرام ہیں جو اپنے نسب سے حرام ہوتے ہیں دائی کا خاوند بیٹا،دیور، جیٹھ،بھائی وغیرہ۔“(مرآۃ المناجیح ، ج05،ص48،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(فیحرم منہ) ای: بسببہ (ما یحرم من النسب)“یعنی رضاعت کے سبب وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب کی بنا پر حرام ہیں۔

    (ما یحرم من النسب) کے تحت رد المحتار میں ہے:”معناہ ان الحرمۃ بسبب الرضاع معتبرۃ بحرمۃ النسب۔“یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت کے سبب جو حرمت ہے اُس میں نسب کی حرمت کا اعتبار ہے۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب النکاح،ج04،ص393،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جو نسب میں حرام ہے رضاع میں بھی حرام۔“(بہار شریعت،ج02، ص38، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   خالہ زاد بہن محارم عورتوں میں شامل نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی  شامی میں ہے :” تحل بنات العمات والاعمام والخالات والاخوال“ یعنی  پھوپھی، چچا، خالہ اور ماموں کی بیٹیوں سے نکاح حلال ہے ۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح، ج 04، ص 107، مطبوعہ کوئٹہ)

   یاد رہے کہ اسلام میں پردے کی سخت تاکید بیان ہوئی ہے ، نامحرموں سے پردہ کرنا عورت پر مطلقاً واجب ہے، بلکہ اجنبی نامحرم کے مقابلے میں نامحرم  رشتہ دار سے پردہ کرنے کی تاکید تو  اور بھی زیادہ ہے۔

   پردے کے حوالے سے تاکید بیان کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)ترجمہ کنزالایمان:”اے نبی!  اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں،  یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ (القرآن الکریم: پارہ 22، سورۃ الاحزاب،آیت 59)

   عورت کا نامحرموں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”جو محرم نہیں وہ اجنبی ہے ، اس سے پردہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسے اجنبی سے ، خواہ فی الحال اس سے نکاح ہوسکتا ہو یا نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص415، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کریگی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ،ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

   اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی ، یہ سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃ میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے۔ لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: الحمو الموت، رواہ احمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ جیٹھ دیور تو موت ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج 22، ص 217، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”کیا اپنی بھابھی، خالہ زاد بہن، پھوپھی زاد بہن، اور چچا زاد بہن سے بے پردہ بات چیت کرنا اور ان سے ملنا جائز ہے یا نہیں؟ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”یہ عورتیں محارم میں سے نہیں ہیں۔“ (فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 05، ص 244-243، شبیر برادرز، لاہور)

   عورت کا غیر محرم کے سامنے بے پردہ جانا مطلقاً حرام ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”بے پردہ بایں معنیٰ کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے، ان میں سے کچھ کھلا ہو، جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز، تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقاً حرام ہےخواہ وہ پیر ہو یا عالم ہو یا عامی جوان ہو یا بوڑھا۔“(فتاوی رضویہ، ج 22، ص 240-239، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   مردوں کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے کی ممانعت کے متعلق حدیث پاک میں ہے: عن عقبة بن عامر، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال :ایاکم والدخول علی النساء“ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔(شعب الايمان، تحریم الفروج، ج  07، ص309 ،مطبوعہ ریاض)

   مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنےکے متعلق ہدایہ میں مذکور  ہے:’’و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ ‘‘ترجمہ : مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں  ۔( الھدایہ ، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی الوطء و النظر و المس ، ج 4 0، ص 368، دار احياء التراث العربي ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم