فتوی نمبر:WAT-3032
تاریخ اجراء: 29صفر المظفر1446 ھ/04ستمبر2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرے بھائی اور اس کی زوجہ کے درمیان علیحدگی ہو گئی ہے اور علیحدگی کے وقت میری بھابھی حاملہ تھی ،ان کا کہنا ہے کہ لڑکا یا لڑکی جو بھی پیدا ہوگا وہ اُسے نہیں رکھیں گی ، تو میرا ارادہ ہے کہ بھائی کی ہونے والی اولاد کو میں رکھوں گی ،مگر مجھے پوچھنا یہ ہے کہ میرا اپنا بھی ایک 14 مہینے کا دودھ پیتا بچہ ہے اور اب جب میں بھائی کا بچہ پالوں گی تو ظاہر ہے کہ اس کی تو خوراک میرا دودھ ہی ہوگی ،تو کیا میں اپنے 14 ماہ کے بچے کو دو سال کی مدت سے پہلے ہی دودھ چھڑا سکتی ہوں ؟ کیونکہ ایک ساتھ دو بچوں کو دودھ پلانے میں میرے لئے آزمائش ہو جائے گی ۔شرعی رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دودھ پلانے میں پورے دو سال کی مدت کو پورا کرنا کوئی واجب و ضروری نہیں ،بلکہ اگر اس مدت سے پہلے ہی بچے کو دودھ پلانے کی ضرورت نہ رہے، اس طرح کہ ماں کے دودھ کے علاوہ دوسری غذا ؤں سے بچہ خوراک حاصل کررہا ہو ،اور ماں کا دودھ چھڑانے میں بچے کو کوئی نقصان اور خطرہ بھی لاحق نہ ہو، تو دو سال سے پہلے بھی دودھ چھڑانا شرعاً جائز ہوتا ہے۔ شریعت مطہرہ نے بچے کو دودھ پلانے کی مدت جو پورے دو سال مقرر فرمائی ہے،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دودھ پلانے کی مدت کو مکمل کرنا چاہے تو وہ صرف دو سال کی مدت تک ہی دودھ پلاسکتا ہے ،اس کے بعد اس کیلئے دودھ پلانا جائز نہیں ہوگا ،لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے بچے کو دودھ کی ضرورت نہ رہی ہو،اور دودھ چھڑانے میں کوئی نقصان بھی نہ ہو،تو آپ دو سال سے پہلے ہی اُسے دودھ چُھڑاسکتی ہیں ،اس میں کوئی گناہ اور حرج کی بات نہیں ہے ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾ترجمہ کنز الایمان : اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے ۔(پارہ 2،سورۃ البقرۃ،آیت 233)
تفسیر روح البیان میں ہے:’’لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ بيان للذى توجه اليه حكم الإرضاع كأنه قيل هذا الحكم لمن فقيل لمن أراد ان يتم الرضاعة ۔۔۔ واعلم ان مدة الرضاع عند ابى حنيفة حولان ونصف وعندهما حولان فقط استدلالا بهذه الآية ولا يباح إرضاع بعد هذا الوقت المخصوص على الخلاف لان اباحته ضرورية لانه جزء الآدمي فيتقدر بقدر الضرورة ۔۔۔ ثم ان إتمام الحولين غير مشروط عند ابى حنيفة للآية اى لان في قوله تعالى لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ دلالة على جواز النقص‘‘ترجمہ:(جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے)یہ مدت ان لوگوں کیلئے بیان کی گئی ہے،جو دودھ پلانے کے حکم کی طرف متوجہ ہوں ،گویا کہ کہا گیا کہ دو سال تک دودھ پلانے کا حکم کس کیلئے ہے؟تو ارشاد فرمایا گیا کہ جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔اور جان لو کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دودھ پلانے کی مدت اڑھائی سال ہے اور صاحبین کے نزدیک اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے صرف دو سال ہے ،تو اس اختلاف پر مخصوص وقت کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں کیونکہ اس کا جائز ہونا ضرورت کی وجہ سے تھا کہ یہ آدمی کا جزء ہے( جس سے بلا ضرورت انتفاع جائز نہیں)تو اسے ضرورت کی حد تک ہی جائز رکھا جائے گا(اس کے بعد ممانعت ہوجائے گی )پھر دو سال کی مدت کو پورا کرنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس آیت کی وجہ سے شرط نہیں ہے یعنی اللہ تعالی کے اس فرمان میں کہ جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے،تو ا س میں دو سال سے کم مدت تک دودھ پلانے کے جائز ہونے پر دلالت ہے۔(تفسیر روح البیان،ج 1،ص 363،364،دار الفكر ، بيروت)
تفسیر قرطبی میں ہے:’’وقوله تعالى:" لمن أراد أن يتم الرضاعة" دليل على أن إرضاع الحولين ليس حتما فإنه يجوز الفطام قبل الحولين‘‘ترجمہ:اور اللہ تعالی کا فرمان:(جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے)یہ دلیل ہے اس بات پر کہ دو سال تک دودھ پلانا لازم نہیں،لہذا دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانا جائز ہے۔ (تفسیر قرطبی، ج 3،ص 162، دار الكتب المصرية ، القاهرة)
اردو زبان میں لکھی گئی نہایت ہی عمدہ اور آسان تفسیر بنام’’ تفسیر صراط الجنان ‘‘میں ہے:’’(بچہ کو )دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں ۔اگربچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لئے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا ،جائز ہے۔“(صراط الجنان،ج 1،ص 408،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
محیط برہانی میں ہے:’’قوله تعالى: {لمن أراد أن يتم الرضاعة} هي من إرادة تمام الرضاع ترضع حولين كاملين لا ينقص عن ذلك، ولكن إذا نقص عن ذلك، وكان الولد يستغني عن ذلك يجوز‘‘ ترجمہ:اللہ تعالی کا فرمان کہ (جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے)یعنی جو دودھ پلانے کی کامل مدت کا ارادہ کرے تو وہ دو سال تک دودھ پلائے ،اس سے کم نہ کرے،لیکن جو اس سے کم مدت تک دودھ پلائے اور بچہ کو دودھ کی ضرورت نہ ہو،تو (اس سے کم مدت تک بھی دودھ پلانا)جائز ہے۔ (المحیط البرھانی،ج 3،ص 565،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بچّے گود دینے کا ایک اہم مسئلہ
والدکے بجائےپرورش کرنے والے کا نام استعمال کرنا
دودھ پلانےکی مدّت
بچی گود لینےکے شرعی احکام
کیا بچّے کو دودھ پلانے میں شمسی مہینے کا اعتبار کرسکتے ہیں؟
تین سال کے گود لیے بچے کو دودھ پلانے سے رضاعت کا حکم
بہن کی بیٹی کو دودھ پلانے کے بعد اس سے اپنے بیٹے کا نکاح کرنا
پہلے شوہر کے بیٹے کو مدتِ رضاعت میں دوسرے شوہر کے سبب اترنے والا دودھ پلانا