Bacha Kitna Doodh Piye To Hurmat e Razaat Sabit Hogi?

 

بچہ کتنا دودھ پیے، تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی؟ تفصیلی فتوی

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8967

تاریخ اجراء: 25 ذوالحجۃ الحرام 1445 ھ / 02 جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  عائشہ چھ ماہ کی تھی ، اس وقت  عائشہ کی خالہ نے  اسے ایک یا  دو گھونٹ اپنا دودھ پلایا تھا ، اس سے زیادہ نہیں پلایا ، اب عائشہ کا اس کی خالہ کے بیٹے سے نکاح   ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ ہمیں بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ  ایک دو گھونٹ  دو دھ پینے سے رضاعت کا رشتہ ثابت نہیں ہوتا  ، بلکہ کم از کم پانچ گھونٹ پینا ضروری ہے،  لہٰذا آپ رشتہ کر سکتے ہیں ، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا  واقعی  ایسی کوئی حدیثِ پاک ہے ؟ اور کیا ہم  اس حدیثِ پاک  کی رو سے رشتہ کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جب عائشہ نے اپنی خالہ کا دودھ پیا  ہے، اگرچہ معمولی مقدار میں ہی پیا ،  تو اس کا نکاح اس کی خالہ کے بیٹے کے ساتھ نہیں ہو سکتا ، یہ بات قرآن وحدیث ، اقوالِ صحابہ  ، مفسّرین ،محدثین اور اَئمۂ مجتہدین رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کےاقوال سے ثابت ہے۔ 

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ حرمتِ رضاعت کے ثابت ہونے کے لیےایک آدھ چُسکی بھی کافی ہے، کیونکہ قرآنِ مجید میں جس جگہ رضاعت ( بچے کے دودھ پینے )کو حرمت کا سبب  قرار دیا  گیا ، وہاں مطلق حکم  بیان کیا گیا  ہے ، نہ تو مدتِ رضاعت (یعنی کتنی عمر تک دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوگی ، اس) کی وضاحت کی گئی اور نہ ہی دودھ کی مقدار کو بیان کیا گیا ، البتہ قرآنِ مجید میں ایک دوسرے مقام پر مدتِ رضاعت کو بیان  کر دیا گیا ، لیکن دودھ کی   کوئی معین مقدار  کہیں بھی بیان نہیں ہوئی ،  یونہی  بہت سی احادیثِ طیبہ میں بھی مطلق  حکم بیان کیا گیا ، مثلاً: ایک عورت نے حضرت عقبہ بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہ اور ان کی زوجہ  کودودھ پلانے کا  دعویٰ کیا ، حضرت عقبہ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا ،تو نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دودھ کی کوئی مقدار معلوم کیے بغیر جدائی کا فیصلہ فرما دیا ۔ اگر حرمتِ رضاعت کے لیے پانچ چُسکیاں ضروری ہوتیں ، تو ضرور نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عقبہ رَضِیَ اللہ عَنْہ سے دودھ کی مقدار معلوم کرتے ، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلكہ بعض احادیثِ طیبہ میں صراحتاً اس چیز کا بیان ہے کہ دودھ کی مقدار کم ہو یا زیادہ ،  یہ حرمتِ رضاعت کو ثابت کر دیتا ہے ۔ معلوم ہوا حرمتِ رضاعت کے لیے پانچ چسکیاں یا پیٹ بھر دودھ پینا ضروری نہیں ،ورنہ قرآنِ مجید یا ان مطلق  احادیث میں  ضرور  کوئی متعین مقدار بیان کی جاتی ، لہٰذا عائشہ کا نکاح اس کی خالہ کے بیٹے یعنی اس  کے رضاعی بھائی کے  ساتھ نہیں ہو سکتا ،  کیونکہ جس طرح  نسبی یعنی حقیقی بہن  ،بھائی کا نکاح  حرام ہے  ، یونہی رضاعی بہن ،  بھائی کا نکاح بھی حرام ہے  ۔( سوال میں بیان کردہ حدیثِ پاک کا جواب نیچے بیان کیا جائے گا

   مدتِ رضاعت میں دودھ پینے سے مطلقاً ( دودھ کم پیا ہو یا زیادہ ، بہر صورت  )حرمتِ رضاعت  ثابت ہو جانے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے  :﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ  اَرْضَعْنَكُمْ  وَ  اَخَوٰتُكُمْ  مِّنَ  الرَّضَاعَةِ ﴾ترجمہ  کنز   العرفان :’’اور (تم پر حرام کی گئیں ) تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ (کے رشتے) سے تمہاری بہنیں ۔“(پارہ 4، سورۃ النساء ،آیت 23)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ  کے تحت امام ابو منصور محمد بن محمد ما تریدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 333ھ)  لکھتے ہیں:أما في التقدير: فعموم قوله تعالى ﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ  اَرْضَعْنَكُمْ  وَ  اَخَوٰتُكُمْ  مِّنَ  الرَّضَاعَةِ لم يخص قدرا دون قدر.وروي عن عليٍ وعبد اللہ قالا: قليل الرضاع وكثيره سواء.وعن ابن عباس كذلك. وعن عبد اللہ بن عمر قال: الرضعة الواحدة تحرم ترجمہ :  بہر حال دودھ کی مقدار کے متعلق  قرآنِ پاک کی اس  آیتِ مبارکہ ’’ اور (تم پر حرام کی گئیں ) تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ (کے رشتے) سے تمہاری بہنیں‘‘ میں عموم ہے ،  دودھ کی کم یا زیادہ ہونے کے اعتبار سے کوئی مقدار  خاص نہیں کی گئی   ۔ اور مولیٰ علی   اور حضرت عبداللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے  کہ  حرمتِ رضاعت کے ثبوت میں دودھ کی قلیل و کثیر مقدار برابر ہے ۔ یونہی  سیّد المفسرین حضرت عبداللہ  بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے  بھی مروی ہے  اور حضرت عبداللہ بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ  ایک چُسکی  بھی حرام کردیتی ہے ۔ (تفسیر ماتریدی ، جلد 3 ، صفحہ 91 ، مطبوعہ بیروت )

   امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:671ھ/1273ء)لکھتے ہیں:أئمة الفتوى إلى أن الرضعة الواحدة تحرم إذا تحققت كما ذكرنا ... وقال الليث بن سعد: وأجمع المسلمون على أن قليل الرضاع وكثيره يحرم في المهد ما يفطر الصائم  ترجمہ : ائمہ فتویٰ بیان کرتے ہیں  کہ ایک چُسکی بھی حرمتِ رضاعت کو ثابت کر دیتی ہے، جبکہ دودھ پینا ثابت ہو ، جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا اور حضرت لیث بن سعد   عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں  کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دودھ کم ہو یا زیادہ  ، حتی کہ اتنی مقدار  دودھ بھی اگر  بچہ پی لے کہ  جو   مقدار روزہ دار کا روزہ توڑ دے ،تو  حرمتِ رضاعت  ثابت ہو جائے گی  ۔( تفسیر قرطبی ،جلد5،صفحہ110،مطبوعہ بیروت)

   اسی طرح  تفسيرِ بغوی ، روح المعانی ، اللباب  اور تفسیرِ مظہری وغیرہا کتبِ تفاسیر میں بھی ہے ۔

   کتبِ احادیث میں سینکڑوں مقامات پر وہ احادیث موجود ہیں ، جن میں  رضاعت کو حرمت کا سبب  قرار دیا گیا ، لیکن  ان احادیث میں سے کسی ایک حدیثِ پاک میں  بھی   مخصوص مقدار کا ذکر نہیں کہ پانچ چسکیاں یا پیٹ بھر پینے سے ہی حرمت ثابت ہوگی ، چنانچہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، ابو داؤد ، سنن ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، مسند احمد ، مصنف عبدالرزاق ،  مسند دارمی ، سنن کبریٰ ، معجم کبیر ، دار قطنی   ، جمع الجوامع ، کنز العمال  وغیرہا کتب ِاحادیث میں ہے ، واللفظ للبخاری :”يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب“ ترجمہ:جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں،وہ رضاعت(یعنی دودھ پینے کی وجہ ) سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔    (صحیح البخاری،کتاب الشھادات ، جلد1، صفحہ360،مطبوعہ کراچی)

   صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہ کا واقعہ مذکور ہے کہ  نبی کریم  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے دودھ کی مقدار معلوم کیے بغیر جدائی کا فیصلہ فرما دیا ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :”عن عقبۃ بن الحارث انہ تزوج ابنۃ لابی اھاب بن عزیز فاتتہ امراۃ فقالت انی قد ارضعت عقبۃ والتی تزوج بھا ، فقال لھا عقبۃ ما اعلم انک ارضعتنی ولا اخبرتنی فرکب الی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ فسالہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کیف وقد قیل ففارقھاعقبۃ ونکحت زوجا غیرہ “ ترجمہ  : حضرت عقبہ بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہ بیان کرتے ہیں  کہ انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی، تو ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے عقبہ نے شادی کی ہے ، ان دونوں کو دودھ پلایا ہے ، تو حضرت عقبہ  رَضِیَ اللہ عَنْہ نے فرمایا ، مجھے نہیں معلوم کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے کبھی ) دودھ پلانے کی خبر دی ہے ، پھر آپ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس مدینہ منورہ آئے اور سوال کیا توآپ  عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نے فرمایا : (تو اس کے ساتھ )کیسے(رہ سکتا ہے )؟ جبکہ یہ کہا گیا ہے (کہ تم دونوں نے ایک عورت کا دودھ پیا ہے )  تو حضرت عقبہ  رَضِیَ اللہ عَنْہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب العلم ، باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ ، جلد1، صفحہ19،مطبوعہ کراچی )

   امام ابو جعفر طحاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 321ھ)  کہ جو جلیل القدر امام ہیں ، بلکہ فقہائے کرام نے ان کو مجتہد فی المسائل قرار دیا ہے ، آپ  علیہ الرحمۃ مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا  حضرت عقبہ  رَضِیَ اللہ عَنْہ سے دودھ پلانے کی تعداد کا سوال نہ فرمانا ، اس  بات پر دلیل ہے کہ حرمت میں قلیل اور کثیر برابر ہیں،کیونکہ اگر شریعتِ مصطفیٰ  میں ایک یادو چسکیوں سے حرمت ثابت نہ ہوتی ، تو محال ہے کہ  رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عقبہ کو  جدائی کا حکم دیتے، بلکہ حضرت عقبہ سے فرماتے کہ اس عورت سے پوچھو ، اس نے کتنی بار تم دونوں کو دودھ پلایا ؟ تا کہ جانا جا سکے کہ یہ مقدار اتنی ہے کہ اس سے شادی کرنا حرام ہو جائے ، لیکن نبی کریم  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا ،  یہ اس بات پر دلیل ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک بھی حرمتِ رضاعت  میں قلیل و کثیر برابر ہیں  ۔اصل عبارت یہ ہے : کان فی ھذا الحدیث ترک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کشف عدد الرضاع الذی ذکرت تلک السوداء انھا ارضعت عقبۃ والمراۃ التی تزوجھا وفی ذلک ما قد دل علی استواء قلیلہ وکثیرہ فی الحرمۃ لانہ لو کان من شریعتہ ان لا تحرم الرضعۃ والرضعتان الی العدد المذکور فی ذلک الحدیث الذی روینا لاستحال ان یکون رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یامر الذی سالہ بفراق مَنْ قَدْ اَرضعتہ والمراۃ التی قد تزوجھا المراۃ التی ذکرت لہ انھا ارضعتھما رضا عا لا یمنع من تزویجہ ایاھا ولکن یقف عقبۃ فیقول  لہ سلھا عن عدد الرضاع الذی ارضعتکما ، کم ھو؟ لیقف بذلک علی انہ من الرضاع الذی یحرم علیہ ان یتزوجھا اذا کان فی الحقیقۃ کذلک والتورع عن ذلک اذا کان الشک فیھاو انہ من الرضا ع الذی لا یحرم علیہ تزویجھا فیخلیہ وذلک التزویج ، وفی ترکہ کذلک ما قد دل علی انہ لا فرق کان عندہ بین قلیل الرضاع وبین کثیرہ فی الحرمۃ“ترجمہ:  مفہوم اوپر گزر چکا ۔ (شرح مشکل الآثار ، جلد11، صفحہ499، مطبوعہ بیروت)

   بلکہ بعض روایات میں صراحتاً مذکور ہے کہ دودھ کی مقدار کم ہو یا زیادہ ،  یہ حرمتِ رضاعت کو ثابت کردیتا ہے ، چنانچہ حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب، قليله وكثيره ترجمہ : رضاعت ( یعنی دودھ پینے ) سے  بھی  وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں ، جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ، خواہ دودھ کی مقدار کم ہو یا زیادہ ۔( مسند امام ابو حنیفہ ، کتاب الرضاع ،صفحہ 360  ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   جہاں تک سوال میں بیان کردہ  روایت کا تعلق  ہے کہ  حرمتِ رضاعت کے لیے کم از کم پانچ چسکیاں پینا ضروری  ہے ، ورنہ رضاعت کا رشتہ ثابت نہیں ہوگا ،  تو  اس روایت پر عمل کرنا ، جائز نہیں ، اس کی کئی وجوہات ہیں:

   (1)  دودھ پینے کی تعداد و مقدار کے متعلق صرف پانچ چسکیوں والی روایت نہیں  ہے ، بلکہ روایات مختلف ہیں ، کسی میں پانچ  چسکیوں کا ذکر ہے  ، کسی میں سات بار پینے کو ضروری قرار دیا گیا  ،کسی میں دس بار پینا بیان ہوا اور کسی میں دو چسکیوں سے زیادہ پی لینے سے حرمت کو متعلق کیا گیا  ، تو  جب الفاظ میں اختلاف  اور اضطراب ہے ،تو  یہ  روایات مضطرب ہوئیں ، (یعنی وہ روایات جن کے مفہوم میں ایسا تعارض ہو کہ  ان کو جمع کرکے عمل کرنا ،ممکن ہی نہ ہو )اور مضطرب احادیث کو اگر جمع کرنا ،ممکن   نہ ہو ، تو  ان پر عمل کرنا ، جائز نہیں ، لہٰذا مطلق حکم قرآنی  پر عمل کرنا لازم  ہے ، تاکہ ایک یقینی حکم پر عمل  ہو سکے ۔

   (2) دودھ پینے کی تعداد والی  مضطرب روایات قرآنِ مجید کے عموم کے خلاف ہیں کہ قرآنِ مجید میں ﴿اَرْضَعْنَكُمْ  ﴾اور﴿  الرَّضَاعَةِ ﴾ کے کلمات ہیں ، جن کا ماخذ اور اصل "رضع" ہے   اور اس کا معنی ہے :رضع: رضع الصبي رضاعا ورضاعة، أي: مص الثدی وشرب  یعنی بچے کا عورت کی چھاتی سے دودھ  چوسنا ۔ (   العین ، صفحہ 270 ، مطبوعہ مکتبۃ الھلال )

   رضاعت کے معنی میں دودھ پینے ، پلانے کی تعداد و مقدار کا کچھ ذکر نہیں ، تو حکمِ قرآنی عام ہے اور تعداد والی مضطرب روایات  اس عمومِ قرآن کے خلاف ہیں  اور اصول یہ ہے کہ  جب قرآنِ مجید کے عام  (ایسا عام جس میں سے کسی بھی چیز کی تخصیص نہ کی گئی ہو ، اس ) کے مقابلے میں   ایسی روایت  آ جائے ، جو خبر واحد  ہو اور مضطرب بھی نہ ہو ، تو اس کے ذریعے حکمِ قرآنی کو خاص نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ خبر واحد کو چھوڑ دیا جائے گا   اور کتاب اللہ کے عموم پر عمل کیا جائےگا ،تو اگر حکم قرآنی کے مقابلے میں مضطرب روایت آ جائے ، تو اسے بدرجہ اولیٰ چھوڑ دیا جائے گا، معلوم ہوا کہ دودھ کی مقدار والی روایات قابلِ عمل نہیں ۔

   (3) مضطرب حدیث، حدیثِ ضعیف ہے اورضعیف حدیث  سے فقط کسی چیز کا  مستحب ہونا ثابت ہو سکتا ہے ، سنت ہونا بھی ثابت نہیں ہو سکتا ،تو  حلال و حرام کیسے ثابت   ہو سکتے ہیں ؟ اور رضاعت کا معاملہ حلال و حرام سے تعلق رکھتا ہے ، لہٰذا مضطرب روایات  دلیل  نہیں بن سکتیں۔

   (4)  پانچ  یا دیگر عدد والی مضطرب روایات نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے  اس فیصلے کے خلاف ہیں ، جو آپ نے حضرت عقبہ رَضِیَ اللہ عَنْہ اور ان کی زوجہ کے متعلق فرمایا تھا  ، جیساکہ   اوپر حدیثِ پاک بیان کر دی گئی ، لہٰذا  ان  روایات پر عمل کرنا ، جائز نہیں ۔

   (5) دودھ پینے کی تعداد ومقدار  والی روایات منسوخ ہو چکیں، یعنی ان کا حکم پہلے تھا ، پھر یہ حکم ختم ہوگیااور منسوخ  پر عمل کرنا ،  جائز نہیں   ہوتا  ، لہٰذا یہ روایات قابلِ عمل نہیں ہوں گی۔ 

بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے: 

   رضاعت کی تعداد کے متعلق مختلف روایات ہیں ،  بعض روايات میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے مروی ہے کہ ایک اور دو چسکیاں کافی نہیں ، دو سے زیادہ  ، مثلاً تین چسکیاں حرمتِ رضاعت کے لیے لازم ہیں  ، چنانچہ مسندِ احمد میں ہے : عن عائشة، أن نبي اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:’’ لا تحرم المصة والمصتان   ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ  نبی پاک صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ایک دو چسکیوں سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔( مسند احمد ، مسند الصدیقۃ عائشہ ، جلد 40 ، صفحہ 27، مطبوعہ  بیروت )

   پانچ چسکیوں  والی روایت بھی سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے ہی مروی ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے : عن عائشة، أنها قالت:  كان فيما أنزل من القرآن: عشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن، بخمس معلومات “ترجمہ : سيّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا بیان کرتی ہیں کہ قرآن پاک میں دس معلوم چسکیوں کا حکم نازل ہوا تھا ، پھر اسے پانچ معلوم چسکیوں سے منسوخ  کر دیا گیا۔(صحیح المسلم، کتاب الرضاع ، جلد1، صفحہ 540  ، مطبوعہ لاھور )

   سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے ہی بہت سی روایات ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سات  چسکیوں کو حرمتِ رضاعت کے لیے  لازم سمجھتی تھیں ، چنانچہ مصنف عبدالرزاق ، دار قطنی ، جامع الاحادیث ، جمع الجوامع وغیرہا کتبِ احادیث میں ہے ، واللفظ للاوّل :”لا يحرم منها دون سبع رضعات“یعنی سات چسکیوں سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہو گی۔  (مصنف عبد الرزاق، ، جلد7، صفحہ466، مطبوعہ  المجلس العلمی)

   دس چسکیوں والی روایت  بھی کتبِ احادیث میں موجود ہے ،  بلکہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے بھی  دس چسکیوں کی روایت  مروی ہے ، چنانچہ  سننِ سعید بن منصور ، سننِ کبریٰ  میں ہے ، واللفظ للاوّل :”لا تحرم دون عشر رضعات فصاعدا  “ترجمہ: دس یا زائد چسکیوں سے ہی حرمت ثابت ہو گی۔(سنن سعید بن منصور  ، جلد1،  صفحہ 276، مطبوعہ ھند )

   اصولِ حدیث کے مطابق مذکورہ بالا روایات مضطرب ہیں ،چنانچہ مضطرب حدیث کی تعریف کے متعلق’تیسیرِ مصطلح الحدیث‘‘ میں ہے:’’ھو الحديث الذي يروی علی أشكال مختلفۃ متعارضۃ متدافعۃ بحيث لا يمكن التوفيق بينھما أبدا   یعنی : وہ حدیث جو ایسی مختلف اسانید سے مروی ہو،جو قوت میں مساوی ہوں، لیکن حدیث کے مفہوم میں ایسا تعارض ہوکہ تطبیق ممکن نہ ہو۔ ( تیسیر مصطلح الحدیث ، صفحہ 83 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ  ، کراچی )

   حدیثِ مضطرب کے حکم کے متعلق’’المقدمۃ ‘‘میں ہے :فإن أمكن الجمع فبھا وإلا فالتوقف  ترجمہ : اگر مضطرب روایات کو جمع کرنا،  ممکن ہو تو ٹھیک  ،ورنہ توقف کیا جائے گا ( یعنی ان پر عمل نہیں کیا جائےگا  ) ۔(المقدمۃ  للشیخ، صفحہ 19 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حرمتِ رضاعت کے معاملے میں قرآنِ پاک کے عموم پر  عمل پیرا تھے ، چنانچہ شرح مشکل الآثار میں ہے :  أن ابن عمر سئل عن المصة والمصتين، فقال: لا يصلح ،  فقيل له: إن ابن الزبير لا يرى به بأسا، فقال: يقول اللہ﴿ وَاَخَوٰتُكُمْ  مِّنَ  الرَّضَاعَةِ (النساء: 23) ، فقضاء اللہ أحق من قضاء ابن الزبير  ترجمہ : حضرت  عبداللہ ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے  ایک دو چسکیوں  کے متعلق سوال کیا گیا ( کہ کیا ان  سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ؟) تو فرمایا : یہ بھی درست نہیں ( یعنی ان سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی ) عرض کی گئی کہ حضرت  عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ ایک دو چسکیوں میں حرج نہیں جانتے،  تو آپ نے   کہا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : ’’اور تمہاری دودھ کے رشتہ کی بہنیں تم پر حرام کی گئیں‘‘ (یعنی قرآنی آیت میں عموم ہے ) ، پھر فرمایا : اللہ کے فیصلہ کا  ابن زبیر کے فیصلے سے زیادہ حق ہے۔(شرح مشکل الآثار ، جلد 11 ، صفحہ 493 ، مطبوعہ بيروت )

   علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:”قليل الرضاع وكثيره سواء إذا حصل في مدة الرضاع يتعلق به التحريم، وكذا روي عن علي بن أبي طالب  رضی اللہ عنہ،  وعبد اللہ بن مسعود، وعبد اللہ بن عمر، وعبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنھم ، وبه قال الحسن البصري وسعيد بن المسيب، وطاوس، وعطاء ومكحول، والزهري، وقتادة، وعمرو بن دينار، والحكم، وحماد، والأوزاعي، والثوري، ووكيع، وعبد اللہ  بن المبارك، والليث بن سعد ومجاهد، وزاد الشيخ أبو بكر الرازي: عمر بن الخطاب  رضی اللہ عنہ  والشعبي والنخعي. وقال ابن المنذر: وهو قول أكثر الفقهاء. وقال النووي: وهو قول جمهور العلماء  وھذا معلوم عربیۃ وشرعا ، قال عزوجل﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ  اَرْضَعْنَكُمْ  ارتبط التحریم بالرضاع مطلقا من غیر تقیید بخمس او سبع او عشر او نحو ذلک فمن قدرہ بعدد لا یدل القرآن علیہ فقد رفع حکم الایۃ بامر مضطرب لا یعول علیہ“ ترجمہ : دودھ پلانا تھوڑا ہو یا زیادہ ، جبکہ مدت رضاعت میں ہو ، اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ اسی طرح حضرت علی ، عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن عباس عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مروی ہے ، حسن بصری ، سعید بن مسیب ، طاوس ، عطا ، مکحول ، زہری ، قتادہ ، عمر و بن دینار، حکم، حماد ، اوزاعی ، ثوری ، وکیع ، عبد اللہ بن مبارک ، لیث بن سعد ، مجاہد  رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ نے یہی بات بیان فرمائی ، شیخ ابو بکر رازی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ عَنْہُ ، شعبی اور نخعی کا اضافہ فرمایا ، جبکہ امام ابن منذر نے فرمایا یہ اکثر فقہاء کا قول ہے ، امام نووی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا یہ جمہور علما کا قول ہے ۔ اور یہ بات عربی لغت اور شریعت کےجاننے والے کو معلوم ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اور تمہاری رضاعی مائیں ‘‘ ، حرمت کو مطلق رضاعت سے معلق فرمایاجس میں پانچ یا سات یا دس وغیرہ کسی عدد کی قید کا ذکر نہ فرمایا ، لہٰذا جو اسے کسی ایسے عدد سے خاص کرتا ہے جس پر قرآن دلالت نہیں کرتا  ،تو اس نے آیت مبارکہ کے حکم کو ایسے مضطرب معاملے کی وجہ سے ختم کر دیا ، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔(بنایہ ، کتاب الرضاع ، جلد6، صفحہ291،294، مطبوعہ ملتان )

   خبرِ واحد اگر عمومِ قرآن کے خلاف ہو ،تو اسے تر ک کر دیا جائے گا ، چنانچہ اصول الشاشی وغیرہا کتبِ اصولِ فقہ میں ہے :قوله تعالى ﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ  اَرْضَعْنَكُمْ  يقتضي بعمومه حرمة نكاح المرضعة وقد جاء في الخبر لا تحرم المصة ولا المصتان ولا الإملاجة ولا الإملاجتان فلم يمكن التوفيق بينهما فيترك الخبر  ترجمہ : اللہ تعالیٰ کا  یہ فرمان :’’اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا‘‘ اپنے عموم کی وجہ سے دودھ پلانے والی سے نکاح کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے (اگرچہ ایک گھونٹ ہی پیا ہو ) اور ( اس کے مقابلے میں )حدیث پاک میں ہے کہ’’ ایک دو چسکیاں اور ایک دو دفعہ چھاتی منہ میں لینا حرام نہیں کرتا ‘‘، تو یہاں قرآن مجید اور حدیثِ پاک کو جمع کرنا، ممکن نہیں ،تو حدیث پاک کو چھوڑ دیا جائے گا۔(اصول الشاشی ، صفحہ 12 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   مضطرب روایت ، حدیثِ ضعیف ہے اور ضعیف حدیث سے کسی عمل کی سنیت بھی ثابت نہیں ہو سکتی ،  چہ جائیکہ حلت و حرمت ثابت ہو ، چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے  :سنیت حدیث ضعیف سے ثابت نہیں ہوتی۔اسی میں  دوسرے مقام پر   ہے :تنہا ضعیف نے صرف استحباب ثابت کیا۔( فتاویٰ رضویہ،جلد 1 ، صفحہ 260 اورجلد 5، صفحہ 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   معین مقدار و تعداد والی روایات منسوخ ہیں ، چنانچہ امام ابو بکر احمد  بن علی  جَصَّاص  رازی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:”عن ابن عباس أنه سئل عن الرضاع فقلت: إن الناس يقولون لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان قال: "قد كان ذاك،فأما اليوم فالرضعة الواحدة تحرم ...فقد عرف ابن عباس وطاوس خبر العدد في الرضاع وأنه منسوخ بالتحريم بالرضعة الواحدة“یعنی حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان سے رضاعت کے بارے میں سوال ہوا،  تو میں نے کہا  لوگ کہتے ہیں کہ ایک دو چسکیاں حرام نہیں کرتیں ، آپ نے فرمایا یہ پہلے تھا ، اب ایک چسکی بھی حرام کر دیتی ہے ، تحقیق حضرت ابن عباس اور طاؤس  رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے رضاعت کی تعداد  کے متعلق روایت کو جان لیا اور یہ بات بھی جان لی کہ یہ حکم ایک بار دودھ پلانے سے منسوخ ہو چکا ۔(احکام القرآن ،سورۃ آل عمران ، جلد2، صفحہ125، مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم