Aurat Ka Lepalak Bache Ko Apni Behan Ka Doodh Pilakar Mehram Banana

عورت کا لے پالک بچے کو اپنی بہن کا دودھ پلاکر محرم بنانا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13200

تاریخ اجراء:        13جمادی الثانی1445 ھ/27دسمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے بچہ گود لیا ،  بچے کی عمر ابھی دو سال سے کم ہے، اب بڑے بھائی کی بیوی اُس لے پالک بچے کو اپنی بہن کا دودھ پلانا چاہتی ہے۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس صورت میں بچہ گود لینے والی عورت کا اُس بچے سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں بچہ گود لینے والی عورت کا اُس بچے سے حرمت کا رشتہ قائم ہوجائے گا، کیونکہ یہ عورت اُس بچے کی رضاعی خالہ کہلائے گی اور رضاعی خالہ بھی اُسی طرح حرام ہوتی ہے جیسے نسبی خالہ حرام ہوتی ہےکیونکہ  جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں ، وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔

   البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ اگرچہ ڈھائی برس کے اندر دودھ پلانے سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، مگر عورت کا دو سال کی عمر کے بعد بچے کو دودھ پلانا ، ناجائز وحرام ہے، لہذا بچے کو دودھ پلانے میں عورت کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

   رضاعت سے حرمت سے متعلق  بخاری شریف میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ یوں مذکور ہے: الرضاعۃ تحرم ما تحرم الولادۃ۔یعنی جو عورتیں نسبی رشتے کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں وہ عورتیں رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہیں ۔(صحيح البخاري، کتاب الخمس، ج 04، ص 82، مطبوعہ دمشق)

   فتاوٰی شامی میں ہے:”ان الحرمۃ بسبب الرضاع معتبرۃ بحرمۃ النسب۔“یعنی رضاعت کے سبب ثابت ہونے والی حرمت میں نسب کی حرمت کا اعتبار ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح،ج04،ص393،مطبوعہ کوئٹہ)

   رضاعی خالہ کی حرمت سے متعلق فتاوٰی عالمگیری میں ہے:أخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة۔“یعنی رضاعی باپ کا بھائی دودھ پینے والے  کا چچا اور بہن اُس کی پھوپھی کہلائے گی، یونہی رضاعی ماں کا بھائی اُس کا ماموں اور بہن اُس کی خالہ کہلائے گی، اسی طرح یہ حرمت دادا اور دادی میں بھی ثابت ہوگی۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الرضاع، ج 01، ص 343، مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” حرمت کے اسباب متعدد ہیں ۔۔۔۔۔ دوم رضاعت ، دودھ کے رشتہ سے یہ عورتیں، دودھ پلانے والی ماں اور اس کی بیٹی بہن اور جس نے اس کا دودھ پیا بیٹی اور جن مرد و عورت کا دودھ پیا ان کی بہنیں خالہ پھوپھی اور اپنے رضاعی بھائی بہن کی اولاد یا اپنے بھائی بہن کی رضاعی اولاد بھتیجی بھتیجیاں، وقس علیہ۔“(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص517، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   دو برس کے بعدعورت کا  بچے کو دودھ پلانا حرام ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے: ”دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے ، مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی ،حرمتِ نکاح ثابت ہوجائے گی اور اس کے بعد اگر پیا ،تو حرمتِ نکاح نہیں اگرچہ پلانا، جائز نہیں۔(بہارِ شریعت، ج02، ص 36، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم