Agar Bacha Aurat Ka Dawa Se Utarne Wala Doodh Pee Le To Razaat Ka Hukum

اگر بچہ عورت کا دوا سے اُترنے والا دودھ پئے تو رضاعت کا حکم؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین ان مسائل میں کہ

   (1) جس عورت کا بچہ نہ ہو وہ ایسی دوا کھا کر جس دوا کے کھانے سے دودھ آجاتا ہے کسی بچے کو دودھ پلادے تو کیا رضاعت ثابت ہوجائے گی؟

   (2)اگر بچہ گود لینا ہو اور آگے چل کر اس سے پردے وغیرہ کا مسئلہ نہ ہو تو اسے رضاعی بیٹا بنانے کےلیے گواہ کیسے بنانے ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر دوائی سے دودھ آگیا توبھی بچے کو دودھ پلانے سے عورت اور بچے کے مابین رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ البتہ اگر وہ عورت شادی شدہ ہو تو اس کا شوہر اس بچے کا رضاعی باپ نہیں ہوگا،اگر چہ اس عورت سے صحبت کی وجہ سے رضاعی بچی اس کے شوہر پر حرام ہو۔ لہٰذا اس دودھ پلانے والی کے شوہر کے رشتہ داروں سے ویسا ہی پردہ ہوگا جیسا اجنبی یا اجنبیہ کا ہوتا ہے۔

   اگر دوائی سے واقعی دودھ اتر آئے تو چونکہ حرمت کی اصل دودھ ہے تو جہاں دودھ آنا متصور و ممکن ہو وہاں اس سے حرمت ثابت ہوگی۔ اگر چہ اس عورت کی کبھی اولاد نہ ہوئی ہو بلکہ اگرچہ عورت کنواری ہی کیوں نہ ہو۔ بشرطیکہ خارج ہونے والی شے دودھ ہو اور اگر دودھ نہیں بلکہ سفید رطوبت ہے تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔

   (2)دودھ پلانےکے وقت شوہر اور دو عورتیں گواہ بن سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں، البتہ اتنا کیا جائے کہ دودھ پلا کر اس کی تشہیر کردیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم