مجیب: مفتی
محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:
Pin-6252
تاریخ اجراء: 28ذو القعدۃ الحرام1440ھ01اگست
2019ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
(۱)جس پر قربانی
واجب ہو، کیا اسے قربانی تک بال اور ناخن نہ کاٹنا ضروری ہیں؟ (۲)۱ ور جس پر قربانی واجب نہیں،
اس کے لیے کیا حکم ہے؟سائل: محمد شفیق اطہر (واہ کینٹ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(۱)جس نے قربانی کرنی ہو، حدیثِ
پاک میں اسے ذو الحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے قربانی تک اپنے بال
اور ناخن کاٹنے سے منع فرمایا گیا ہے، لیکن یہ حکم
وجوبی نہیں، بلکہ استحبابی ہے، یعنی اس پر عمل کرنا
بہتر ہے، لہذا اگر کسی نے بال یا ناخن کاٹ لیے، تو گنہگار
نہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ موئے
زیرِ ناف و بغل اور ناخن، چالیس دن کے اندر کاٹنا ضروری
ہیں، چالیس دن سے زائد بڑھانا مکروہ تحریمی، ناجائز و
گناہ ہے، لہذا اگر کسی نے کئی دن سے ناخن یا موئے زیرِ
ناف و بغل نہ کاٹے ہوں اور قربانی تک نہ کاٹنے سے چالیس دن سے زائد کا
عرصہ ہو جائے گا، تو اب وہ اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا۔
قربانی کرنے والا اپنے ناخن اور بال نہ
کاٹے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:’’من کان لہ ذبح، یذبحہ
فاذا اھل ھلال ذی الحجۃ، فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ
شیئاً حتی یضحی‘‘
ترجمہ: جس کے پاس قربانی کے لیے جانور ہو، تو جب ذوالحجہ کا چاند طلوع
ہو جائے، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ بھی نہ کاٹے، حتی کہ
قربانی کر لے ۔ ‘‘(صحیح المسلم،
کتاب الاضاحی، باب نھی من دخل۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ
160،مطبوعہ کراچی)
یونہی جامع ترمذی میں ہے،آپ
علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’من رای ھلال ذی الحجۃ واراد ان
یضحی، فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ‘‘ ترجمہ : جو ذو الحجہ کا چاند دیکھے اور
قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘(جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، باب ترک اخذ الشعر
لمن ارادہ ان یضحی، جلد 1، صفحہ 278،مطبوعہ کراچی)
مراۃ المناجیح میں ہے:’’جو
امیر وجوباً یا فقیر نفلاً قربانی کا ارادہ کرے، وہ بقر
عید کا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخن بال اور مردار کھال
وغیرہ نہ کاٹے، نہ کٹوائے تاکہ حاجیوں سے قدرے مشابہت ہو جائے، کہ وہ
لوگ احرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہر بال،
ناخن کا فدیہ بن جائے۔ یہ حکم استحبابی ہے، وجوبی
نہیں، لہذا قربانی والے پر حجامت نہ کرانا بہتر ہے، لازم
نہیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ اچھوں سے مشابہت بھی اچھی ہے
۔ ‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370،
نعیمی کتب خانہ، گجرات)
فتاوی رضویہ میں
ہے:’’یہ حکم صرف استحبابی ہے، کر ے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ
نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی
میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے
۳۱ (اکتیس) دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ
تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہو گیا، تو وہ
اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا، اب
دسویں تک رکھے گا، تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو
جائےگااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے
گناہ نہیں کر سکتا ۔ ‘‘(فتاوی
رضویہ، جلد 20، صفحہ 353، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
(۲)جو شخص قربانی نہ کر سکے، اگر وہ بھی اس عشرہ
مبارکہ ( یعنی ذو الحج کے پہلے دس ایام) میں بال اور ناخن
کاٹنے سے رُکا رہے، پھر بعد نمازِ عید حجامت وغیرہ کروا لے، تو
قربانی کا ثواب پائے گا۔
سنن ابو داؤد و نسائی میں حضرت عبد
اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’امرت بیوم الاضحی عیداً، جعلہ اللہ عزوجل لھذہ
الامۃ، فقال الرجل: ارایت ان لم اجد الّا منیحۃ
انثی، افاضحی بھا؟ قال: لا، لکن تاخذ من شعرک وتقلم اظفارک وتقص شاربک
وتحلق عانتک، فذلک تمام اضحیک عند اللہ عزوجل‘‘ ترجمہ : مجھے یوم اضحیٰ کا حکم
دیا گیا، اس دن کو اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے عید
بنایا۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم! اگر میرے پاس منیحہ (یعنی ادھار
لیے گئے جانور) کے سوا کوئی
جانور نہ ہو، تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ فرمایا:
نہیں۔ہاں! تم اپنے بال، ناخن اور مونچھیں تراشو اور موئے
زیر ناف مونڈ لو، اسی میں تمہاری قربانی اللہ عزوجل
کے ہاں پوری ہو جائے گی ۔ ‘‘(سنن نسائی، کتاب الضحایا، باب من لم یجد
الاضحیۃ، جلد 2، صفحہ 201، مطبوعہ
لاھور)
مراۃ المناجیح میں ہے:’’جو
قربانی نہ کر سکے، وہ بھی اس عشرہ میں حجامت نہ کرائے، بقر
عید کے دن بعدِ نماز حجامت کرائے، تو ان شاء اللہ ثواب پائے گا، جیسا
کہ بعض روایت میں ہے۔‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370، نعیمی کتب خانہ،
گجرات)
صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیثِ پاک ذکر کرنے کے بعد
فرماتے ہیں:’’یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ
ہو، اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 15، صفحہ 330، مکتبہ المدینہ،
کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟