مجیب:ابو محمد مفتی
علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13384
تاریخ اجراء: 16ذی القعدۃ
الحرام1445 ھ/25مئی 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صاحبِ
نصاب شخص اگر قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو وہ جانور
قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا کہ خاص اُسی جانور کی
قربانی کرنا اُس پر لازم ہو، بلکہ
اُس جانور کو دوسرے کسی بہتر جانور سے بدلنا بھی صاحبِ نصاب شخص کے
لیے جائز ہوتا ہے، لہذا
پوچھی گئی صورت میں زید کا دنبے سے بہتر بکرے کی
قربانی کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج والی بات
نہیں۔
غنی قربانی کی نیت سے جانور
خریدے تو وہ جانور قربانی کے لیے متعین نہیں
ہوتا۔ جیسا کہ بنایہ شرح ہدایہ وغیرہ کتبِ
فقہیہ میں مذکور ہے:”(لأن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء) يعني قبل الشرع، حاصله أن الغني لا يتعين
عليه بالشراء بل الواجب عليه قبل الشراء۔(لا بالشراء فلم تتعين) أي لا
الوجوب عليه بسبب الشراء إذا كان كذلك فلم يتعين عليه بالشراء۔“ ترجمہ: ”غنی پر ابتداءً شریعت
کی جانب ہی سے قربانی واجب ہے، حاصل کلام یہ ہوا کہ
غنی پر قربانی جانور خریدنے کے سبب متعین نہیں
ہوتی بلکہ اُس پر جانور خریدنے سے پہلے ہی قربانی واجب
ہوتی ہے۔ یعنی قربانی کا وجوب اُس پر
خریداری کے سبب نہ ہوا جب معاملہ ایسا ہی ہے تو
خریداری کے سبب وہ جانور قربانی کے لیے متعین
نہیں ہوا۔ “(البناية
شرح الهدايۃ، کتاب الاضحیۃ ،ج12،ص42 ،دار الكتب العلمية، بيروت)
غنی کے لیے قربانی کے جانور کو اُس سے
بہتر جانور سے بدلنا شرعاً جائز ہے۔ جیسا کہ جد الممتار میں ہے: ”(و یکرہ
ان یبدل اذا
کان غنیاً) ۔ و مطلق
الکراھۃ التحریم۔ بل
زاد سعدی افندی بعد قولہ :
’’اذا کان غنیا ‘‘:(ولکن یجوز استبدالھا بخیر منھا عند ابی حنیفۃ
و محمد رحمھما اللہ تعالی)اھ۔ خصھما؛ لانھا عند ابی یوسف
کالوقف ،فدل علی ان الاستبدال بغیر
الخیر لا یجوز۔“ ترجمہ: ”اگر غنی
ہے،تو اس کے لیے جانور بدلنا مکروہ ہے اور مطلق مکروہ ، مکروہ تحریمی
ہوتا ہے ۔بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمہ نے صاحب عنایہ
کے قول:’’اذا کان غنیا ‘‘کے بعد اس بات کا
اضافہ کیا ہے۔ لیکن امام اعظم و محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے لیے خریدے ہوئے جانور
کو اس سے بہترجانور سے بدلنا جائز ہے
۔ سعدی آفندی علیہ الرحمہ نے ( بہتر سے بدلنے کےجواز کو)ان دونوں (یعنی
امام ابوحنیفہ اور امام محمدعلیہما الرحمہ )کے ساتھ اس لیے
خاص کیا ہےکہ امام ابو یوسف
علیہ الرحمہ کے نزدیک قربانی کا جانور وقف کی طرح
ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قربانی کے جانور کو بہتر کے
علاوہ سے بدلنا جائز نہیں۔(جد الممتار،کتاب الاضحیۃ ،ج06،ص 460، مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
سیدی
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے
ہیں: ”(صورتِ مسئولہ میں) سائلہ جبکہ غنیہ مالکہ نصاب ہے تو بہ نیت
قربانی بکری خریدنے سے خاص اسی کی قربانی اس
پر لازم نہ ہوئی، اسے بدل
لینے کا اختیار تھا، دودھ دیتی دیکھ کر اس کے عوض
مینڈھا کردیا، اس سال گابھن خیال کرکے بھی مینڈھا
کیا ، کچھ حرج نہ ہوا
۔“ (فتاوٰی
رضویہ، ج 20، ص 370، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:”
قربانی کئی قسم کی ہے۔۔۔۔۔
فقیر پر واجب ہو غنی پر نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ
فقیر نے قربانی کے لیے جانور خریدا اس پر اس جانور
کی قربانی واجب ہے اور غنی اگر خریدتا تو اس خریدنے
سے قربانی اس پر واجب نہ ہوتی۔ “(بہار شریعت ، ج03، ص331، مکتبۃ
المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
فتاوٰی فقیہ ملت میں سوال ہوا کہ:”ایک
بکرا قربانی کی نیت سے خریدا پھر اسے بیچ کر دوسرے
بکرے کی قربانی کی تو ایسے شخص کے بارے میں
شریعت کا کیا حکم ہے؟ “ آپ
علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” اگر وہ مالکِ نصاب تھا
تو اس جانور کے خریدنے سے اس پر قربانی واجب نہ ہوئی بلکہ شرعاً
اس پر کسی ایک جانور کی قربانی واجب تھی لہذا جب اس
نے اسے بیچ کر اسی کے مثل دوسرے جانور کی قربانی
کردی تو اس کی قربانی ہوگئی اور وجوب ساقط ہوگیا۔“(فتاوٰی فقیہ ملت، ج 02، ص 254، شبیر برادرز
لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟