Raqam Udhar Mein Phansi Ho To Qurbani Ka Hukum

رقم ادھار میں پھنسی ہو تو قربانی کا کیا حکم ہے ؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2796

تاریخ اجراء: 08ذوالحجۃالحرام1445 ھ/15جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جن خواتین پر اس سال قربانی واجب ہو لیکن ان کی رقم ادھار میں پھنسی ہو اور پورا سال نہ ملے ،تو کیا تب بھی  ان پر قربانی واجب ہو گی؟ادھار لے کر قربانی کا حکم ہے لیکن ان کو کہیں سے ادھار بھی نہ ملے اور ان کے پاس کچھ ایسا بھی نہ ہو جسے بیچ کر وہ قربانی کر سکیں۔تو ایسے میں کیا حکم شرعی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رقم ادھار میں پھنسی ہو تو ایسی صورت میں حکم یہ ہوتا ہے کہ جن کو ادھار دیا ہے ان سے اتنی رقم کا مطالبہ کرے ، جس سے قربانی ہوسکے ، جبکہ اس کو ظن غالب ہوکہ وہ دے دے گا اور اگر کوئی صورت نہ بنے کہ نہ تو ان خواتین کوایام قربانی میں وہ رقم مل سکتی ہے اورنہ ہی ان کے پاس کوئی اورمال ہے ، جس سے جانور خرید سکیں  ، تو ایسی صورت میں ان پر  قربانی واجب نہیں، اور نہ ہی قرض لے کرقربانی کرناان پر لازم ہے۔

   فتاوی بزازیہ میں ہے:’’لہ دین حال علی مقر ولیس عندہ مایشتر یھا بہ لایلزمہ الاستقراض ولا قیمۃ الاضحیۃ اذا وصل الدین الیہ ولکن یلزمہ ان یسال منہ ثمن الاضحیۃ اذا غلب علی ظنہ انہ یعطیہ ‘‘ ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص پر قرض فوری ہے،جس کاوہ اقرار کرتاہے اوراس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکے ، تو اس پر قربانی کے لیے قرض لینالازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پرقربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالازم ہے،لیکن اس کے لیےقربانی کی قیمت جتنی رقم کاسوال کرنا اس کے لیے لازم ہے ، جبکہ اس کوظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔(فتاوی بزازیہ،جلد2،صفحہ406،قدیمی کتب خانہ، کراچی)

    فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ولو کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب وکذا لو کان لہ مال غائب لا یصل إلیہ فی أیامہ‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص پراتنادین ہو کہ وہ اپنامال اس دین کی ادائیگی میں صرف کر ے،تو نصاب باقی نہ رہے تواس پرقربانی نہیں ہے۔اسی طرح جس شخص کامال اس کے پاس موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا بھی نہیں(بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گاتواس پر بھی قربانی واجب نہیں)۔(فتاوی عالمگیری،جلد5،صفحہ292،مطبوعہ: کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم