مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری
مصدق: مفتی محمد
قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-825
تاریخ اجراء: 15ذوالحجۃ الحرام 1437ھ/
18ستمبر2016 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اس دفعہ اپنے جانوروں کی
قربانی عید کے پہلے دن عصر کے
بعد شروع کی،بڑا جانور تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے ہوگیا،لیکن
دو بکر ے مغرب کی نما ز کے بعد ذبح کیے ہیں، اب کچھ لوگ کہتے ہیں
کہ رات کے وقت قربانی درست نہیں ہے ، آپ اس بارے میں رہنمائی فرمادیں
کہ رات کے وقت قربانی کرنے سے ہوجاتی ہے یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی کا وقت دس ذوالحجہ کی طلوع
فجر سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی غروب آفتاب تک ہے یعنی
تین دن اور بیچ کی دو راتیں گیارہویں اور
بارہویں شب ۔ یہ سارا قربانی کا ہی وقت ہے ،البتہ
شہر میں رہنے والوں کے لیے عید کی نماز کے بعد
قربانی کرنا شرط ہے اور دیہات میں رہنے والوں کو طلوع فجر کے
بعد سے ہی قربانی کرنا ، جائز ہے ۔
لہذاذو
الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں شب میں قربانی
کرنا ، جائز ہے ،کیونکہ یہ راتیں بھی قربانی کے وقت
میں شامل ہیں ،البتہ فقہائےکرام رحمۃ اللہ علیہم نے رات
میں قربانی کرنے کو مکروہ تنزیہی فرمایا
ہے،کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے ذبح میں غلطی
ہوسکتی ہے،لیکن فی زمانہ لائٹس، روشنی کا اتنا وافر
انتظام ہوسکتا ہے کہ کسی طرح کی غلطی کا بھی احتمال
باقی نہیں رہتا ،لہذا جہاں رات میں لائٹ ،روشنی کا انتظام
ہو، تو ان لوگوں کے لیے مکروہ بھی نہیں کہاجائے گا کہ جب علت
یعنی اندھیرا ختم ہوگیا ، تو کراہت کا حکم بھی
باقی نہیں رہے گا اور جن کے پاس روشنی کا انتظام نہ ہو وہاں رات
میں قربانی کرنا ، جائز تو ہے، مگر مکروہ تنزیہی
یعنی خلاف اولیٰ ہے ۔
علامہ
ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں
قربانی کا وقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’أول وقتھا فی
حق المصری والقروی طلوع الفجر إلا أنہ شرط للمصری
تقدیم الصلاۃ علیھا فعدم الجواز لفقد الشرط لا لعدم الوقت کما
فی المبسوط وأشیر إلیہ فی الھدایۃ‘‘ترجمہ:
شہری اور دیہاتی کے لیے قربانی کا
ابتدائی وقت طلوع فجر ہے
،لیکن شہر ی کے لیے پہلے (عید کی )نماز ہونا شرط
ہے۔تونماز سے پہلے جانور ذبح کرنے کا عدمِ جواز شرط فوت ہونے کی وجہ
سے ہے،نہ کہ عدم وقت کی وجہ سے جیسا کہ مبسوط میں ہے اور
اسی طرف ہدایہ میں اشارہ ہے ۔(رد المحتار علی الدر
المختار،کتاب الاضحیۃ،جلد9،صفحہ528،مطبوعہ کوئٹہ)
رات میں قربانی کرنے کے بارے
میں فتاوی بزازیہ میں ہے:’’یجوز فی
اللیلتین المتخللتین‘‘ ترجمہ : ایام نحر
کی درمیانی دو راتوں میں قربانی کرنا ، جائز ہے
۔(فتاوی
بزازیہ ،کتاب الاضحیہ ،جلد 2،صفحہ 406،مطبوعہ کراچی)
فتح القدیر میں ہے:’’یجوز فی
لیالھا الا انہ یکرہ لاحتمال الغلط فی ظلمۃ اللیل‘‘ایام نحر کی راتوں کو قربانی
کرنا ، جائز ہے،مگر اندھیرے میں غلطی کے احتمال کی وجہ سے
مکروہ ہے۔(فتح القدیر ،کتاب الاضحیہ،جلد9، صفحہ 568، مطبوعہ کوئٹہ )
درمختار
میں ہے : ’’ وکرہ تنزیھاالذبح لیلا لاحتمال
الغلط‘‘
ترجمہ: اندھیرے میں غلطی کے احتمال کی وجہ سے رات کو ذبح
کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔( ردالمحتار علی
الدرالمختار ، کتاب الاضحیہ ،جلد9 ، صفحہ531 ، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں
ہے : ’’رات کو ذبح کرنااندیشہ غلطی کے باعث مکروہ تنزیہی
اور خلاف اولیٰ ہے۔ ‘‘( فتاوی رضویہ ،
جلد20 ، صفحہ213 ،رضا فانڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟