Qurbani Se Pehle Aik Hissay Dar Inteqal Kar Jaye

قربانی سے پہلے کوئی حصہ دار فوت ہوجائے، تواس کی قربانی کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7867

تاریخ اجراء: 09 ذی القعدۃ الحرام    1443ھ/09 جون  2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگر  سات افراد نے قربانی  کی نیت سے ایک بڑا  جانور خریدا  اور ان میں سے ایک شخص قربانی کا دن  آنے سے پہلے فوت  ہوجائے  ، تو  اب قربانی کا کیا حکم  ہو گا؟ کیا اب بھی اس فوت شدہ فرد  کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر   فوت ہونے والے کے بالغ وُرثا  اس کی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دے دیں ، تو اس کی طرف  سے قربانی  کرنا بلا شبہ جائز    ہے  اور بقیہ سب کی بھی قربانی ادا ہو جائے گی اور اگر وُرثا کی اجازت کے بغیر دیگر شرکائے قربانی نے خود ہی جانور ذبح کر دیا  ،تو ایسی صورت میں کسی کی بھی قربانی نہیں ہو گی ، البتہ اس  کا گوشت  پاکیزہ  و حلال ہی ہو گا۔

   مسئلہ کی تفصیل  یہ ہے کہ  قربانی میں  تَقَرُّبْ ( یعنی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے قربانی  کرنے ) کی نیت ہونا ضروری ہے اور جب بڑے جانور میں حصہ ہو ، تو تمام  افراد  کی نیت ِ تَقَرُّبْ ہونا ضروری ہے  ،  ایک کی بھی نیت، قُرْبَتْ کی نہ ہوئی یا کوئی اور نیت  ،مثلاً گوشت حاصل کرنے  وغیرہ کی نیت پائی  گئی ، تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہو گی اور سوال میں بیان کردہ صورت میں جب ایک شریک فوت ہوا ، تو اس کا حصہ مالِ وراثت بن گیا اور وُرثا کا حق اس کے ساتھ متعلق ہو گیا ، لیکن جب تمام بالغ وُرثا نے اجازت دے دی کہ  ان  کے مرحوم  کی طرف سے حصہ شامل کر لیا جائے ، تو یہ ان کی طرف سے میت کے لیے ایصالِ ثواب  کے طور پر قربانی ہوگی اور  اس طرح بڑے جانور میں زندہ افراد اور فوت شدہ کی طرف سے حصہ  ملانے سے  سب کی قربانی ہو جاتی ہے ، کیونکہ سب کا  مقصود  (رضائے الہی کے لیے قربانی کرنا ) ایک  ہی ہے ، لہٰذا  جب   میت کی طرف سے  تقرب کی نیت ہو سکتی ہے  ،تو  بطورِ  شرکت بھی  اس کا حصہ ملانا درست ہے ۔

اور وُرثا کی اجازت کے بغیر بقیہ چھ افراد کے جانور کو ذبح کر دینے  کی صورت میں سب کی قربانی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ چھ کی نیت تو تَقَرُّبْ کی تھی ، مگر ایک حصہ بغیر قُرْبَتْ    کے شامل ہوا ،  یعنی اس حصے میں کوئی نیت  نہیں پائی گئی اور جب بڑے جانور  میں ایک حصہ بھی بغیر نیتِ قُرْبَتْ     پایا جائے ، تو سب کی قربانی نہیں ہوتی۔

   بڑے جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے سب شرکا کی نیتِ  تَقَرُّبْ ہونا شرط  ہے ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:قد علم ان الشرط قصد القربۃ من الکل ترجمہ : یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ بڑے جانور میں شرکت کے لیے سب کی طرف سے تقرب کی نیت ہونا شرط ہے ۔

(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الاضحیۃ   ، جلد9، صفحہ540، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اورایصال ِ ثواب کے لیے  قربانی کرنا بھی تَقَرُّبْ الی اللہ کے لیے ہوتا ہے ، لہٰذا فوت شدہ  کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے ،چنانچہ  نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی اُمت کے ایصالِ ثواب کےلیے  قربانی فرمائی ، جیساکہ  سنن ابو داؤد شریف میں ہے: عن جابر بن عبد  اللہ  قال شهدت مع رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم الأضحى في المصلى فلما قضى خطبته نزل من منبره وأتي بكبش فذبحه رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم بيده وقالبسم اللہ واللہ أكبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتي   ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں عید الاضحیٰ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ عید گاہ میں تھا،  جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے  ، تو منبر ِ انور سے نیچے تشریف لائے، تو ایک مینڈھا لايا گیا ،  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اُسے اپنے دستِ اقدس سے ذبح فرمایا  اور فرمایا: بسم اللہ واللہ اکبر هذا عني وعمن لم يضح من أمتيیعنی :یہ قربانی میری    طر ف سے اور میرےاُن  امتیوں کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکیں (یعنی اس کا ثواب ان کو بھی پہنچے)۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا،باب  فی الشاۃ یضحیٰ بھا عن جماعۃ،جلد 2،صفحہ 40،مطبوعہ لاھور )

   اور سنن کبریٰ  ، شعب الایمان ، مجمع الزوائد وغیرہا  کتبِ احادیث کی روایت کے مطابق نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی  ، ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی اُمت کی طرف سے ، یونہی مولیٰ المسلمین، حضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم  بھی دو مینڈھے  ذبح فرمایا کرتے ، ایک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی طرف  سے دوسرا اپنی طرف سے ، جیساکہ سنن ترمذی  اور دیگر کتبِ احادیث میں موجود ہے ۔

   اور قربانی کے شرکا میں سے ایک فوت ہو جائے اور وُرثا اس کی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دے دیں ، تو قربانی ہو جانے  کے متعلق علامہ بُر ہانُ الدین  مرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:593ھ/1196ء) لکھتے ہیں: وإذا اشترى سبعة بقرة ليضحوا بها فمات أحدهم قبل النحر، وقالت الورثة: اذبحوها عنه وعنكم أجزأهم ترجمہ : اور جب سات افراد گائے کی قربانی میں شریک ہوں اور ان میں ایک شریک قربانی سے پہلے فوت ہو جائے اور ورثا کہیں کہ یہ گائے اس کی طرف سے اور اپنی طرف سے ذبح کر دو ، تو سب  کی قربانی ہو جائے گی ۔(الھدایہ،کتاب الاضحیۃ  ، جلد 4 ، صفحہ 449،مطبوعہ لاھور)

   مسئلہ مبحوث عنھا میں وُرثا کی اجازت کی صورت میں  سب کی قربانی ہوجانے کی علت بیان  کرتے ہوئے ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:وجہ الاستحسان : ان الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته وان كان منهم من قد مات قبل أن يذبح ، فدل ان الميت يجوز أن يتقرب عنه ، فاذا ذبح عنہ صار نصیبہ للقربۃ ، فلا یمنع جواز ذبح الباقین ترجمہ : اس طرح میت کی طرف سے قربانی بطورِ استحسان درست ہونے کی وجہ  یہ ہےکہ میت کی طرف سے تقرب کی نیت کرنے سے موت مانع نہیں ہوتی ، کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دو مینڈھے ذبح  فرمائے،ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنے ان اُمتیوں کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکیں،حالانکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امتیوں  میں سے کچھ ایسے امتی بھی تھے کہ جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کےاس جانور کو  ذبح  فرمانے سے پہلے ہی دنیا سے جا چکے تھے،لہٰذا  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا یوں کرنا اِس  بات کی دلیل ہے کہ  میت  کی جانب سے نیکی کا کام کرنا  اور اُسے اِس کا ثواب پہنچانا ، جائز ہے، لہٰذا جب جانور کو  ذبح کیا جائے گا ، تو اس فوت شدہ کی طرف سےشامل کیا گیا  حصہ     بھی بطورِ تقرب ہی  ہو گا ، اس لیے یہ بقیہ کی قربانی ہونے سے   مانع نہیں بنے گا۔ (بدائع الصنائع ،کتاب التضحیۃ،جلد 6،صفحہ 307،مطبوعہ کوئٹہ )

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ایک گائے میں زندہ اور مردہ  دونوں  شریک ہو سکتے ہیں ، جبکہ مردہ کی طرف سے اس کا ولی وغیرہ کوئی زندہ قربانی کراتا ہو  … قربانی میں شرکت کے جوا زکے لیے  یہ ضرور ہے کہ وہ سب حصہ دار کی طرف  سے قربت کی نیت سے ذبح ہو ، کسی کا مقصود محض گوشت نہ  ہو  …رہا یہ  کہ اس میں  سے کوئی  حصہ میت کی طرف سے ہو ، تو اس کی وجہ سے قربانی  ناجائز نہ ہو گی  کہ میت کی طرف سے قربت ہو سکتی ہے ۔ (فتاوی  امجدیہ ،کتاب الاضحیۃ   ، جلد  3، صفحہ306، مطبوعہ مکتبہ  رضویہ  ، کراچی )

   مزید ایک مقام پر صدرالشریعہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:قربانی میں شرکت کے لیے نیت ِ تقرب  شرط ہے  اور میت کی طرف سے  نیت ِ تقرب  ہو سکتی ، لہٰذا شرکت بھی  ہو سکتی ہے  ۔         (فتاوی  امجدیہ ،کتاب الاضحیۃ ،   جلد  3، صفحہ 308، مطبوعہ مکتبہ  رضویہ  ، کراچی )

   اور وُرثا کی اجازت کے بغیر قربانی کرنے کی صورت میں کسی کی بھی قربانی نہ ہونے کے متعلق تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار  میں  ہے : (وإن)(‌مات ‌أحد ‌السبعة) المشتركين في البدنة (وقال الورثة )  أي : الكبار منهم نهاية ، ( اذبحوا عنه وعنكم) (صح) عن الكل استحسانا لقصد القربة من الكل، ولو ذبحوها بلا إذن الورثة لم يجزهم لأن بعضها لم يقع قربةترجمہ :  اور اگر بڑے جانور کی قربانی میں شریک سات افراد میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے اور اس کے ورثا میں سے بالغ  وُرثا یہ کہیں  کہ اس فوت شدہ  مرحوم  کی طرف سے اور اپنی طرف سے اس جانور کو ذبح کر دو ، تو استحساناً سب کی قربانی  ہو جائے گی ، کیونکہ سب کی طرف سے تقرب کا قصد پایا گیا  اور اگر شرکائے قربانی نے وُرثا کی اجازت کے بغیر ذبح کر لیا ، تو کسی کی  قربانی نہیں ہو گی ، کیونکہ  ان میں سے ایک  حصہ بطور ِتقرب واقع نہیں ہوا۔ (ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الاضحیۃ   ، جلد9 ، صفحہ539، مطبوعہ  کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم