قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنا کیسا ؟ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:aqs:1374 |
تاریخ اجراء:26ذیقعدۃ الحرام1439ھ/09 اگست2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے بھائی کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، تو گھر والے کہہ رہے ہیں کہ اس کا عقیقہ بھی قربانی کے جانور میں حصہ ڈال کر کر لیں گے ، لیکن کچھ رشتہ دار کہہ رہے ہیں کہ قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ نہیں رکھا جاسکتا ، تو آپ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ نیز عقیقے کا گوشت والدین ، دادا دادی ، نانا نانی بھی کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟ سائل:محمد فیصل (نیو گولی مار ، کراچی) |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ حصہ رکھنے میں افضل یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے عقیقے کے لیے ایک حصہ رکھا جائے ، اگر کسی نے لڑکے کے عقیقے کے لیے ایک حصہ بھی رکھا ، جب بھی کوئی حرج نہیں ۔ نیز عقیقے کے گوشت کے قربانی کی طرح تین حصے کرنا مستحب ہے ، جو بچےّ کے والدین ، دادا دادی ، نانا نانی ، امیر غریب ہر کوئی کھا سکتا ہے ۔ حاشیۃ الطحطاوی میں ہے : ”و لو ارادوا القربۃ الاضحیۃ او غیرھا من القرب اجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا او وجب علی البعض دون البعض و سواء اتفقت جھۃ القربۃ او اختلفت ۔۔۔ کذلک ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبلہ “ترجمہ : ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں نے ( اس جانور میں )قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو ، تو یہ نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا ۔ چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو ، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو ۔۔۔۔ اسی طرح اگر ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ( تو بھی جائز ہے ۔ )( حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 4 ، صفحہ 166 ، مطبوعہ کوئٹہ ) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”عقیقہ کا گوشت آباء و اجداد بھی کھا سکتے ہیں ۔ مثلِ قربانی اس میں بھی تین حصے کرنا مستحب ہے ۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 586 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور ) صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں :”عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچہ کے ماں باپ اور دادا دادی ، نانا نانی نہ کھائیں ، یہ محض غلط ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ “ ( بھارِ شریعت ، حصہ 15 ، جلد 3 ، صفحہ 357 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی ) فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں : ”کتبِ فقہ میں مصرح ( یعنی اس بات کی صراحت کی گئی ہے ) کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ۔۔۔۔ تو جب قربانی میں عقیقہ کی شرکت جائز ہوئی ، تو معلوم ہوا کہ گائے یا اونٹ کا ایک جزء عقیقہ میں ہوسکتا ہے اور شرع نے ان کے ساتویں حصہ کو ایک بکری کے قائم مقام رکھا ہے ، لہٰذا لڑکے کے عقیقہ میں دو حصے ہونے چاہیے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ یعنی ساتواں حصہ کافی ہے ، تو ایک گائے میں سات لڑکیاں یا تین لڑکے اور ایک لڑکی کا عقیقہ ہوسکتا ہے ۔ بعض عوام میں یہ مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت والدین نہ کھائیں ، غلط ہے ۔ والدین بھی کھا سکتے ہیں اور غنی کو بھی کِھلا سکتے ہیں ۔ “( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی ) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟